ترجمہ: کنزالایمان
فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اللہ نے) فرمایا: اے موسیٰ! میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰمُوْسٰى:فرمایا اے موسیٰ۔} اللہ
تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیدار کے مطالبے پر منع فرما دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے انعامات کو گِنوا کر انہیں تسلی دیتے ہوئے شکر کرنے کا
حکم دے رہا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد
فرمایا: ’’اے موسیٰ! دیدار کا مطالبہ کرنے پر اگرچہ تجھے منع کر دیا گیا لیکن میں
نے تمہیں فلاں فلاں عظیم نعمتیں تو عطا فرمائی ہیں لہٰذا دیدار سے منع کرنے پر
اپنا سینہ تنگ نہ کرو، تم ان نعمتوں کی طرف دیکھو جن کے ساتھ میں نے تمہیں خاص کیا
کہ میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا
واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا جبکہ دیگر انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرشتے کے واسطے سے
کلام ہوا۔( خازن، الاعراف، تحت
الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸)
حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے زمانے کے لوگوں
پر انتخاب ہوا:
یاد رہے کہ آیت میں جو
بیان ہو ا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو
اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر منتخب کرلیا ‘‘ اس میں لوگوں سے مراد
اُن کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانے کے لوگوں میں
سب سے زیادہ عزت و مرتبے والے ، شرافت ووجاہت والے تھے کیونکہ آپ صاحبِ شریعت تھے
اور آپ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب تورات بھی نازل
ہوئی۔ لہٰذا اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تاجدارِ رسا لت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸، صاوی، الاعراف، تحت
الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۷۰۸، ملتقطاً)
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)