Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 151 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌؕ-اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًاۘ-اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(148)وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْاۙ-قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(149)وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًاۙ-قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْۚ-اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْۚ-وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِؕ-قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ﳲ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(150)قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(151)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّخَذَ:اور بنالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کلام کرنے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے تیس دن بعد سامری نے بنی اسرائیل سے وہ تمام زیوارت جمع کر لئے جو انہوں نے اپنی عید کے دن قبطیوں سے استعمال کی خاطر لئے تھے ۔ فرعون چونکہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو چکا تھا، اس لئے یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے اور سامری کی حیثیت بنی اسرائیل میں ایسی تھی کہ لوگ اس کی بات کواہمیت دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ سامری چونکہ سونے کو ڈھالنے کا کام کرتا تھا اس لئے اس نے تمام سونے چاندی کو ڈھال کر اس سے ایک بے جان بچھڑا بنایا۔ پھر سامری نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کے سُم کے نیچے سے لی ہوئی خاک اس بچھڑے میں ڈالی تو اس کے اثر سے وہ گوشت اور خون میں تبدیل ہو گیا (اور بقولِ دیگر وہ سونے ہی کا بچھڑا تھا) اور گائے کی طرح ڈکارنے لگا۔ سامری کے بہکانے پر بنی اسرائیل کے بارہ ہزار لوگوں کے علاوہ بقیہ سب نے اس بچھڑے کی پوجا کی۔ یہ لوگ اتنے بے وقوف اور کم عقل تھے کہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ بچھڑا نہ تو ان سے سوال جواب کی صورت میں کلام کر سکتا ہے، نہ انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھا سکتا ہے تو یہ معبود کس طرح ہو سکتا ہے۔ حالانکہ بنی اسرائیل جانتے تھے کہ رب وہ ہے جو قادرِ مُطْلَق، علیم، خبیر اور ہادی ہو اور نبی کے واسطے سے مخلوق سے کلام فرمائے۔ بچھڑا چونکہ راہ ِہدایت نہ دکھا سکتا تھا اس اعتبار سے وہ جماد کی طرح تھا۔ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اِعراض کر کے ایسے عاجز و ناقص بچھڑے کو پوجا تو وہ ظالم ٹھہرے۔ پھر جب اپنے اس کرتوت پرشرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی مناجات سے مشرف ہو کر کوہ ِطور سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے تو بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خبر دے دی تھی کہ سامری نے اُن کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ آپ کو جھنجلاہٹ اور غصہ سامری پر تھا نہ کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ انہیں سامری نے گمراہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے (قوم سے فرمایا کہ تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ شرک کرنے لگے اور میرے تورات لے کر آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ دوسرے قول کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اپنی قوم کے ان لوگوں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ لوگوں کو بچھڑا پوجنے سے نہ روکا ۔کیا تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم میں جلدی کی اور میرے توریت لے کر آنے کا انتظار نہ کیا؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوم کا ایسی بدترین معصیت میں مبتلا ہونا نہایت شاق اور گراں ہوا تب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میں نے قوم کو روکنے اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے میں کمی نہیں کی لیکن قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جس سے وہ خوش ہوں اور مجھے ظالموں کے ساتھ شمار نہ کرو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کا عذر قبول کرکے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب! اگر ہم میں سے کسی سے کوئی اِفراط یا تفریط ہوگئی تومجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرما اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔یہ دعا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے مانگی کہ دوسرے لوگ یہ سن کر خوش نہ ہوں کہ بھائیوں میں چل گئی اور اس کے ساتھ یہ وجہ بھی تھی کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا غم غلط ہو جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۰، ۲ / ۱۴۰-۱۴۲، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۱، ۲ / ۲۹۷ -۲۹۹، ملتقطاً)
نوٹ:یہ واقعہ اجمالی طور پر سورۂ بقرہ آیت 51تا54میں گزر چکا ہے، مزید تفصیل کے ساتھ ا س کے علاوہ سورۂِ طٰہٰ میں بھی مذکور ہے ۔
{وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ:اور تختیاں ڈال دیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب اپنی قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو دینی حمیت اور اللہ ربُّ الْعالمین کے ساتھ شرک پر غیرت کی وجہ سے شدید غضبناک ہوئے اور عُجلَت میں تورات کی تختیاں زمین پر رکھ دیں تاکہ ان کا ہاتھ جلدی فارغ ہو جائے اور وہ اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سر پکڑ سکیں۔ اسے قرآنِ پاک میں ڈالنے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ڈالنے میں کسی بھی طرح تورات کی تختیوں کی بے حرمتی مقصود نہ تھی اور وہ جو منقول ہے کہ بعض تختیاں ٹوٹ گئیں تواگر وہ درست ہے تو وہ عجلت میں زمین پر رکھنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوں گی ، نہ یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غرض تھی اور نہ ہی ان کو یہ گمان تھا کہ ایساہو جائے گا ۔یہاں پر صرف دینی حمیت اور فَرطِ غضب کی وجہ سے جلدی میں ان تختیوں کو زمین پر رکھنا مراد ہے۔ (روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۵ / ۹۰-۹۱)
{فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ:تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔} شَمَاتت کا معنی ہے کسی کی تکلیف پر خوش ہونا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۴۲)
شماتت کی مذمت:
فی زمانہ دینی اور دنیوی دونوں شعبوں میں شَمَاتت کے نظارے بہت عام ہیں ، مذہبی لوگ اور اسی طرح کاریگر، دوکاندار، کارخانے ،فیکٹری یا مل میں ملازمت کرنے والے، یونہی کسی کمپنی، ادارے یابینک میں جاب کرنے والے، ان کی اکثریت بھی شَمَاتت یعنی اپنے مسلمان بھائی پر آنے والی مصیبت پر خوش ہونے کے مذموم فعل میں مبتلا نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ اگر آپس میں کسی وجہ سے ناراضی ہو جائے تو پھر جس سے ناراضی ہو تی ہے اگر وہ یا اس کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے، اُس کے یہاں ڈاکہ پڑ جائے یا اس کا مال چوری ہوجائے ،یاکسی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوجائے، یاحادِثہ ہو جائے ، یامُقَدَّمہ قائم ہوجائے یا پولیس گرفتار کر لے، یاگاڑی کا نقصان یا چالان ہو جائے، الغرض وہ کسی طرح کی بھی مصیبت میں پھنس جائے تو ناراض ہونے والے صاحب بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات جو کہ ضرورت سے زیادہ باتونی اور بے عمل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ تو یہاں تک بول پڑتے ہیں کہ دیکھا !ہم کو ستایا تھا نا تو اُس کے ساتھ ’’ ایسا‘‘ ہو گیا ! گویا وہ چھپی باتوں اور سَربَستہ ( یعنی خفیہ ) رازوں کے جاننے والے ہیں اور آں بدولت (یعنی اِن) کو اپنے مخالف پر آنے والی مصیبت کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ذیل میں مذکور روایت اور امام غزالی کے فرمان سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ
حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا تُظْہِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ اللہُ وَیَبْتَلِیْکَ‘‘ اپنے بھائی کی شَماتَت نہ کر (یعنی اس کی مصیبت پر اظہار ِمَسَرَّت نہ کر) کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کردے گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۵۴-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۴)
حضرت امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کہا گیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا’’برا خاتمہ‘‘ ہے ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتے ہیں۔ یہ گناہ’’ ولایت اور کرامت کاجھوٹا دعویٰ کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الرابع من قواعد العقائد فی الایمان والاسلام۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۱)
یاد رہے کہ اگرکسی مسلمان کی مصیبت پر دل میں خود بخود خوشی پیدا ہوئی تو اِس کا قصور نہیں تا ہم اِس خوشی کو دل سے نکالنے کی بھر پور سَعی کرے، اگر خوشی کا اظہار کرے گا تو شماتت کا مُرتکب ہو گا ۔لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف پر خوشی کے اظہار سے بچے اور شیطان کے دھوکے میں آ کر خود کو’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ نہ سمجھے اور اس سے بچنے کی دعا بھی کرتا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مصیبت، بد بختی کے آنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے پناہ مانگا کرتے تھے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من جہد البلاء، ۴ / ۲۰۲، الحدیث: ۶۳۴۷)
{قَالَ:عرض کی۔} یہ دعا ئے مغفرت امت کی تعلیم کے لئے ہے، ورنہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کو اس دعا میں شامل فرمایا حالانکہ ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی۔ نیز اس دعا میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دلجوئی اور قوم کے سامنے ان کے اکرام کا اظہار بھی مقصودتھا۔