banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 152 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ(152)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک وہ جو بچھڑا لے بیٹھے عنقریب انہیں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچناہے دنیا کی زندگی میں اور ہم ایسا ہی بدلا دیتے ہیں بہتان ہایوں کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود) بنالیا عنقریب انہیں دنیا کی زندگی میں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچے گی اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود)بنالیا ۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ بچھڑا پوجنے والے لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کوہِ طور سے واپس آنے سے پہلے ہی مر گئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ یہودی ہیں کہ جنہوں نے بچھڑے کو پوجااور بعد میں توبہ نہ کی۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۴ / ۳۹۵) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کی۔ اس صورت میں غضب سے مراد قتل ہونا اور ذلت سے مراد گمراہی کا اعتراف کرنا اور قتل ہونے کاحکم تسلیم کرنا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور سیدُ المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پایا اور اُن کے آباء و اَجداد بچھڑے کی پوجا کرتے تھے اور غضب سے مراد آخرت کا عذا ب اور دنیا میں ذلت سے مراد جزیہ دینا ہے۔ عطیہ عوفی کا قول ہے کہ’’ غضب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونا اور ذلت سے مراد انہیں حجاز سے جلا وطن کرنا ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)

{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ:اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو بدلہ دیا اسی طرح ہم ہر اس شخص کو بدلہ دیں گے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے اور غیرِ خدا کی عبادت کرے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں ’’اللہ کی قسم! یہ قیامت تک ہر بہتان باندھنے والے کی جزاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ سزا قیامت تک آنے والے ہر بدعتی کے بارے میں ہے۔حضرت مالک بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ہر بدعتی اپنے سر کے اوپر سے ذلت پائے گاپھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)

بدعت کی تعریف:

           بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقائد یا وہ اعمال جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔(جاء الحق، حصہ اول، پہلا باب: بدعت کے معنی اور اس کے اقسام واحکام میں، ص۱۷۷)

بدعت کی اقسام:

           بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں (1) بدعتِ حَسنہ (2) بدعتِ سَیّئہ۔ بدعتِ حسنہ یہ ہے کہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو۔ اور بدعتِ سیئہ یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا کہ جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو اورا س کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل ہو رہا ہو۔