banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 182 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ(182)

ترجمہ: کنزالایمان اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں جلد ہم انہیں آہستہ آہستہ عذاب کی طرف لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم انہیں اس طرح ہلاکت وعذاب کے قریب کر دیں گے کہ انہیں پتا بھی نہ چل سکے گا کیونکہ یہ لوگ جب کوئی جرم یا گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر نعمت اور بھلائی کے دروازے کھول دیتا ہے، دُنیَوی نعمتوں کی فراوانی دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتے ہیں اور سرکشی و گمراہی، گناہ اور مَعاصی کا بازار مزید گرم کر دیتے ہیں حتّٰی کہ جتنا نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی گناہ زیادہ کرتے ہیں ، پھر اچانک عین غفلت کی حالت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۲، ۵ / ۴۱۸)

گناہوں کے باوجود نعمتیں ملنا کہیں اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ ہو :

            اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دن رات گناہوں میں مصروف رہنے کے باجود عیش و فراوانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئے دن ان کی عیش و عشرت اور مال دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، انہیں بھی اس بات سے ڈر جانا چاہئے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کیلئے ڈھیل نہ ہو اور عین غفلت کی حالت اللہ تعالیٰ ان کی گرفت نہ فرما لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘ (انعام:۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں۔

             حضرت عقبہ بن عامر   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ   سے  روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے  ارشاد فرمایا ’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے گناہوں کے باوجود ان کے سوالوں کے مطابق عطا فرما رہاہے تو یہ ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِستِدراج اور ڈھیل ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی، ۶ / ۱۲۲، الحدیث: ۱۷۳۱۳)

             حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں جب کسریٰ کے خزانے لائے گئے تو اس وقت انہوں نے دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں ڈھیل دئیے جانے والوں سے ہوں کیونکہ میں نے تیرا یہ ارشاد سنا ہے:

’’سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (سنن الکبری للبیہقی، کتاب قسم الفیء والغنیمۃ، باب الاختیار فی التعجیل بقسمۃ مال الفیء اذا اجتمع، ۶ / ۵۸۱، الحدیث: ۱۳۰۳۳)