ترجمہ: کنزالایمان
جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور وہ انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ
فَلَا هَادِیَ لَهٗ:جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔}اس آیت کا یہ معنی نہیں
ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کیا ہے
کیونکہ اگر یہ معنیٰ ہو تو کفار قیامت کے دن حجت پیش کریں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گمراہ کر دیا تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟کس
قانون کی بنا پر ہمیں ہماری گمراہی کی سزا دی جا رہی ہے؟ بلکہ اس آیت کا معنی یہ
ہے کہ جب مسلسل کفریہ عقائد پر جمے رہنے کی وجہ سے کفار کے دلوں میں گمراہی راسخ
ہو گئی اور وہ اپنی سر کشی میں حد سے بڑھ گئے حتّٰی کہ انہوں نے اپنے اختیار سے اس
چیز کو ضائع کر دیا جو انہیں ہدایت اور ایمان کی دعوت دیتی تو پھر ان کے دل و دماغ
سے دعوت ِحق قبول کرنے کی اِستِعداد جاتی رہی اور وہ اس طرح ہو گئے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی پر پیدا کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چھوڑے رکھنا اور اس کی گرفت نہ کرنا عذاب ہے
یعنی یوں کہ بندہ کفر و شرک اور گناہ کرتا رہے لیکن کوئی پکڑ نہ ہو جبکہ اس کے
برعکس بندے کی معمولی بات پر گرفت ہو جانا اللہعَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے جلد ہی دنیا میں
سز ادیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا
بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)