banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 186 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗؕ-وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(186)

ترجمہ: کنزالایمان جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔ ترجمہ: کنزالعرفان جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور وہ انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ:جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔}اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کیا ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ ہو تو کفار قیامت کے دن حجت پیش کریں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گمراہ کر دیا تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟کس قانون کی بنا پر ہمیں ہماری گمراہی کی سزا دی جا رہی ہے؟ بلکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مسلسل کفریہ عقائد پر جمے رہنے کی وجہ سے کفار کے دلوں میں گمراہی راسخ ہو گئی اور وہ اپنی سر کشی میں حد سے بڑھ گئے حتّٰی کہ انہوں نے اپنے اختیار سے اس چیز کو ضائع کر دیا جو انہیں ہدایت اور ایمان کی دعوت دیتی تو پھر ان کے دل و دماغ سے دعوت ِحق قبول کرنے کی اِستِعداد جاتی رہی اور وہ اس طرح ہو گئے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی پر پیدا کیا ہے۔

گناہ پر جلدی پکڑ نہ ہونا عذاب ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چھوڑے رکھنا اور اس کی گرفت نہ کرنا عذاب ہے یعنی یوں کہ بندہ کفر و شرک اور گناہ کرتا رہے لیکن کوئی پکڑ نہ ہو جبکہ اس کے برعکس بندے کی معمولی بات پر گرفت ہو جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی رحمت ہے۔ حضرت انس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے  ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے جلد ہی دنیا میں سز ادیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)