ترجمہ: کنزالایمان
وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے پھر جب مرد اس پر چھایا اسے ایک ہلکا سا پیٹ رہ گیا تو اسے لیے پھرا کی پھر جب بوجھل پڑی دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی ضرور اگر تو ہمیں جیسا چاہیے بچہ دے گا تو بیشک ہم شکر گزار ہوں گے ۔
پھر جب اس نے انہیں جیسا چاہیے بچہ عطا فرمایا انہوں نے اس کی عطا میں اس کے ساجھی ٹھہرائے تو اللہ کو برتری ہے ان کے شرک سے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس سے سکون حاصل کرے پھر جب مرد اس عورت پر چھایا تواسے ایک ہلکے سے بوجھ کا حمل ہوگیا تو وہ اسی کو لے کر چلتی رہی پھر جب حمل کا وزن بڑھ گیا تو دونوں اپنے رب سے دعا کرنے لگے : اگر تو ہمیں صحیح سالم بچہ عطا فرما دے تو ہم یقیناشکر گزار ہوں گے۔
پھر جب اس نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا فرمادیا تو انہوں نے اس کی عطا میں شریک ٹھہرا دئیے تو اللہ ان کے شرک سے بلندوبالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ:وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد
والی آیت کی مفسرین نے مختلف تفاسیر بیان کی ہیں،ان میں سے دو تفاسیر درج ذیل ہیں:
(1)…مشرکین یہ کہا کرتے
تھے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (مَعَاذَاللہ) بتوں کی عبادت کرتے تھے
اور بھلائی طلب کرنے اور برائی دور ہونے کے سلسلے میں بتوں کی طرف رجوع کرتے
تھے،تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا واقعہ بیان فرمایا کہ
انہوں نے تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی
تھی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں صحیح سالم اور تندرست بچہ عطا
فرمائے گا تو ہم ضرور تیری ا س نعمت کا شکر ادا کریں گے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا کر دیا تو کیا ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کا شریک ٹھہرایا؟ اللہ
تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب ان کی بات سے بری ہے۔
(2)… ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایاہے یہ بطورِ مثال ہے اور اس میں
مشرکوں کی جہالت اور ان کے شرک کاحال بیان کیا گیا ہے۔ اس صورت میں آیت کا خلاصہ
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تم
میں سے ہر ایک کو ایک جان سے پیدا کیا یعنی ماں اور باپ سے پیدا کیا اور یہ دونوں
انسان ہونے میں یکساں ہیں ،پھر جب شوہر اور بیوی میں ملاپ ہوا اور حمل ظاہر ہوا تو
ان دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں صحیح اور تندرست بچہ عطا کرے گا تو
ہم ضرور تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ویسا ہی بچہ عنایت فرمایا تو اُن کا حال یہ ہو اکہ
وہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے
شریک ٹھہرانے لگ گئے کیونکہ کبھی تو وہ اس بچے کو انسانی فطرت کے تقاضے کی طرف
منسوب کرتے ہیں جیسے دَہریوں کا حال ہے، کبھی ستاروں کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسا کہ
ستارہ پرستوں کا طریقہ ہے اورکبھی بتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں
کا دستور ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
کہ’’ وہ اُن کے اِس شرک سے برتر ہے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت
الآیۃ: ۱۸۹، ۵ / ۴۲۸)
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)