banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 199 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(199)

ترجمہ: کنزالایمان اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے حبیب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذِ الْعَفْوَ:اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے:

(1) …جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔

(2)… اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے ۔

(3)…جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے الجھئے نہیں بلکہ حِلم کامظاہرہ فرمائیں۔

عَفْو و درگزر اور سیرتِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبارت تھی ۔آپ کے بے مثال عفوودر گزر کاایک واقعہ ملاحظہ ہو، چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوۂ بدر کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ کیا۔ جب قریشِ مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا پیچھا کیا حتّٰی کہ مقامِ ذی طُویٰ میں انہیں پا لیا۔ ہبار بن الاسود نے حضرت زینب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا۔(سیرت نبویہ لابن ہشام، خروج زینب الی المدینۃ، ص۲۷۱)

اتنی بڑی اَذِیّت پہنچانے والے شخص کے ساتھ نبیِّ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسلوک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جِعِرَّانَہ سے واپسی پر میں سیِّد عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےپاس بیٹھا تھا کہ اچانک دروازے سے ہبار بن الاسود داخل ہوا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ ہبار بن الاسود ہے۔ ارشاد فرمایا: میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ ایک شخص اسے مارنے کے لئے کھڑا ہوا توتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اشارہ کیا کہ بیٹھ جائے۔ ہبار نے قریب آتے ہی کہا ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی! آپ پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں۔ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ سے بھاگ کر کئی شہروں میں گیا اور میں نے سوچا کہ عجم کے ملکوں میں چلا جاؤں ، پھر مجھے آپ کی نرم دلی صلہ رحمی اور دشمنوں سے آپ کا درگزر کرنا یاد آ یا۔ اے اللہ کے نبی! ہم مشرک تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب ہمیں ہدایت دی اور ہمیں ہلاکت سے نجات عطا کی۔ آپ میری جہالت سے اور میری ان تمام باتوں سے جن کی آپ تک خبر پہنچی ہے درگزر فرمائیں۔ میں اپنے تمام برے کاموں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ رحیم و کریم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دے دی اور اسلام پچھلے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (الاصابہ، حرف الہاء، الہاء بعدہا الباء، ۶ / ۴۱۲-۴۱۳)

اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن میں عظیم عفو درگزر کی جھلک نمایاں ہے جیسے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابو سفیان کو معاف کر دیا، اپنے چچا حضرت حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنے والے غلام وحشی کو معاف کر دیا، حضرت حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دانتوں سے کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ کو معاف کر دیا، یونہی صفوان بن معطل ،عمیر بن وہب اور عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کر دیا، سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی اور ان کے علاوہ بہت سے ظالموں اور ستم شعاروں کے ظلم و جفا سے در گزر کر کے معافی کا پروانہ عطا فرما دیا۔آیت میں مذکور حکم ہر مسلمان کیلئے ہے کہ عفوودرگزر اختیار کرے، نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے منہ پھیر لے۔ ([1])


[1] …عفو و در گزر کی ترغیب اور جذبہ پانے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’عفو ودرگزر کی فضیلت‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔