banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 200 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(200)

ترجمہ: کنزالایمان اور اے سننے والے اگر شیطان تجھے کوئی کونچا دے تو اللہ کی پناہ مانگ بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اے سننے والے! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے تو (فوراً) اللہ کی پناہ مانگ، بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ:اور اے سننے والے! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے۔} اس آیت میں خطاب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور مراد اور لوگ ہیں کیونکہ شیطان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مُسلَّط نہیں ہو سکتا،اور اس کا معنی یہ ہے کہ اے انسان! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے(اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وغیرہ پر) ابھارے تو ا س کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور اپنے آپ سے اس وسوسے کو دور کئے جانے سے متعلق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا  کر ،بے شک وہ تیری دعا کو سننے والا اور تیرے حال کو جاننے والا ہے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۷۳۷، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)

شیطان کو مغلوب کرنے کے طریقے:

            امام محمد غزالی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :صوفیائے کرام اور مجاہدات کرنے والی بزرگ ہستیوں کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں :

(1)…شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے ،اس کے علاوہ (شیطان کے شر سے) بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ، کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر مسلط فرما دیا ہے ،اگر تم اس سے مقابلہ اور جنگ کرنے اور اسے دور کرنے میں مشغول ہو گئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور آخر کار وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی کر کے ناکارہ بنا دے گا، اس لئے بہر حال اس کتے کے مالک کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا تمہارے لئے شیطان سے جنگ اور مقابلہ کرنے سے بہتر ہے۔

(2)…شیطان سے مقابلہ کرنے ،اسے دور کرنے اور اس کی تردید اور مخالفت کرنے کے لئے بندہ ہر وقت تیار رہے۔

            میں (امام محمد غزالی) کہتا ہوں :میرے نزدیک اس کا جامع اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ( مذکورہ بالا)دونوں طریقوں پر عمل کیا جائے ،لہٰذا سب سے پہلے شیطان مردود کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم ارشاد فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں شیطان لعین کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہے ،اس کے بعد بھی اگر تم یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے باوجود شیطان تم پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ عبادت وغیرہ میں تمہاری قوت اور صبر کو ظاہر فرما دے جیساکہ کافرو ں کو ہم پر مسلط فرمایا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کافروں کے عزائم اور ان کی شر انگیزیوں کو ہمارے جہاد کئے بغیر ملیا میٹ کر دینے پر قادر ہے لیکن وہ انہیں صفحۂ ہستی سے ختم نہیں فرماتا بلکہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جہاد، صبر ،گناہوں سے چھٹکارے اور شہادت سے ہمیں بھی حصہ مل جائے اور ہم اس امتحان میں کامیاب و کامران ہو جائیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ  لِیَعْلَمَ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَ  یَتَّخِذَ  مِنْكُمْ  شُهَدَآءَؕ-وَ  اللّٰهُ  لَا  یُحِبُّ  الظّٰلِمِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطا فرما دے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا  الْجَنَّةَ  وَ  لَمَّا  یَعْلَمِ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  جٰهَدُوْا  مِنْكُمْ  وَ  یَعْلَمَ  الصّٰبِرِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔

            تو (جس طرح کافروں کے ساتھ جہاد کا حکم ہے )اسی طرح ہمیں شیطان سے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ مقابلہ اور اس سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،نیزعلماءِ کرام نے شیطان سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کے (مزید) تین طریقے بیان فرمائے ہیں :

(1)…تم شیطان کے مکر و فریب اور اس کی حیلہ سازی سے ہوشیار اور باخبر ہو جاؤ کیونکہ جب تمہیں اس کی حیلہ سازیوں کاعلم ہو گا تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا،جس طرح چور کو جب معلوم ہوجاتا ہے کہ مالک ِ مکان کو میرے آنے کا علم ہو گیا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔

(2)…جب شیطان تمہیں گمراہیوں کی طرف بلائے تو تم اسے رد کر دو اور تمہارا دل اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور نہ ہی تم اس کی پیروی کرو کیونکہ شیطان ایک بھونکنے والے کتے کی طرح ہے ،اگر تم اسے چھیڑوگے تو وہ تمہاری طرف تیزی کے ساتھ لپکے گا اور (حملہ کر کے) تمہیں زخمی کر دے گا اور اگر تم اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو ممکن ہے کہ وہ خاموش رہے۔

(3)…تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے رہو اوراپنے آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھو۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ ، العائق الثالث، ص۵۵-۵۶)

            اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے وسوسوں اور ا س کے مکرو فریب سے محفوظ فرمائے اور اس کے واروں سے بچنے کے لئے مُؤثِّر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔