Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 31 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(31)
تفسیر: صراط الجنان
{ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ:اپنی زینت لے لو۔} یعنی نماز کے وقت صرف سترِ عورت کیلئے کفایت کرنے والا لباس ہی نہ پہنو بلکہ اس کے ساتھ وہ لباس زینت والا بھی ہو یعنی عمدہ لباس میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضری دو۔ اور ایک قول یہ ہے کہ خوشبو لگانا زینت میں داخل ہے یعنی نماز کیلئے ان چیزوں کا بھی اہتمام رکھو۔ سُنت یہ ہے کہ آدمی بہتر ہیئت کے ساتھ نماز کے لئے حاضر ہو کیونکہ نماز میں رب عَزَّوَجَلَّ سے مناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا اور عطر لگانا مستحب ہے جیسا کہ سترِ عورت اور طہارت واجب ہے۔ شا نِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پہلے عورت بیتُ اللہ کا برہنہ ہو کر طواف کرتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ کوئی مجھے ایک کپڑا دے گا جسے میں اپنی شرمگاہ پر ڈال لوں ، آج بعض یا کُل کھل جائے گا اور جو کھل جائے گا میں اسے کبھی حلال نہیں کروں گی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم،کتاب التفسیر، باب فی قولہ تعالی: خذوا زینتکم عند کل مسجد، ص۱۶۱۴، الحدیث: ۲۵(۳۰۲۸))
آیت’’ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت میں ستر چھپانے اور کپڑے پہننے کا حکم دیا گیا اور اس میں دلیل ہے کہ سترِعورت نماز، طواف بلکہ ہر حال میں واجب ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جہاں تک ہو سکے اچھے لباس میں پڑھے اور مسجد میں اچھی حالت میں آئے۔ بدبو دار کپڑے ،بدبو دار منہ لے کر مسجد میں نہ آئے۔ ایسے ہی ننگا مسجد میں داخل نہ ہو۔
مسجدیں پاک صاف رکھنے سے متعلق 3 احادیث:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسجد سے اذیت کی چیز نکالے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہیر المساجد وتطییبہا، ۱ / ۴۱۹، الحدیث: ۷۵۷)
(2)… حضرت و اثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مساجد کو بچوں اور پاگلوں ، خرید و فروخت اور جھگڑے ، آواز بلند کرنے ،حدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد، ۱ / ۴۱۵، الحدیث: ۷۵۰)
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی کو مسجِد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے تو کہے ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ وہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائے، کیونکہ مسجدیں اس کام کیلئے نہیں بنائی گئیں (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد۔۔۔ الخ، ص ۲۸۴، الحدیث: ۸۹(۵۶۸))۔ ([1])
قیمتی لباس میں نماز:
امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نمازِ تہجد کے لئے بیش قیمت قمیص، پاجامہ، عمامہ اور چادر پہنتے تھے جس کی قیمت ڈیڑھ ہزار درہم تھی، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر رات تہجد ایسے لباس میں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’ جب ہم لوگوں سے اچھے لباس میں ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ لباس میں ملاقات کیوں نہ کریں۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)
{ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا:اور کھاؤ اور پیو۔} شا نِ نزول: کلبی کا قول ہے کہ بنی عامر زمانۂ حج میں اپنی خوراک بہت ہی کم کر دیتے تھے اور گوشت اور چکنائی تو بالکل کھاتے ہی نہ تھے اور اس کو حج کی تعظیم جانتے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر عرض کیا: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں ایسا کرنے کا زیادہ حق ہے۔ اس پر یہ نازل ہوا (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۸۸) کہ کھاؤ اور پیو، گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اسراف نہ کرو اور وہ (یعنی اسراف) یہ ہے کہ سیر ہوچکنے کے بعد بھی کھاتے رہو یا حرام کی پرواہ نہ کرو اور یہ بھی اسراف ہے کہ جو چیزاللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کی اس کو حرام کرلو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’کھاؤ جو چاہو اور پہنو جو چاہو اور اسراف اور تکبر سے بچتے رہو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۳۱) اس سے معلوم ہوا کہ محض ترک ِ دنیا عبادت نہیں ترک ِگناہ عبادت ہے۔
خلیفہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب علمِ طب میں بہت ماہر تھا، اس نے ایک مرتبہ حضرت علی بن حسین واقد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا، علم دو طرح کا ہے (1) علمِ ادیان۔ (2) علمِ ابدان۔ اور تم مسلمانوں کی کتاب قرآنِ پاک میں علمِ طب سے متعلق کچھ بھی مذکور نہیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس عیسائی طبیب کو جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے ہماری کتاب کی آدھی آیت میں پوری طب کو جمع فرما دیا ہے۔ عیسائی طبیب نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کونسی آیت ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا‘‘ کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو۔( تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۱۳۹، الجزء السابع)
اشیاء کی حلت و حرمت کااصول:
آیت میں ا س بات کی دلیل ہے کہ کھانے اور پینے کی تمام چیزیں حلال ہیں سوائے اُن کے جن پر شریعت میں دلیلِ حرمت قائم ہو کیونکہ یہ قاعدہ مقررہ مُسَلَّمَہ ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے مگر جس پر شارع نے ممانعت فرمائی ہو اور اس کی حرمت دلیلِ مستقل سے ثابت ہو۔
[1] …مسجدیں پاک صاف اور خوشبودار رکھنے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’مسجدیں خوشبودار رکھئے‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔