banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 32 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ-قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(32)

ترجمہ: کنزالایمان تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی اور پاک رزق تم فرماؤ کہ وہ ایمان والوں کے لئے ہے دنیا میں اور قیامت میں تو خاص انہیں کی ہے ہم یوہیں مفصل آیتیں بیان کرتے ہیں علم والوں کے لئے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو (کس نے حرام کیا؟) تم فرماؤ: یہ دنیا میں ایمان والوں کے لئے ہے، قیامت میں تو خاص انہی کے لئے ہوگا۔ ہم اسی طرح علم والوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ مَنْ حَرَّمَ:تم فرماؤ کس نے حرام کیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہلوں سے فرما دیجئے جو کعبہ معظمہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے اسی لئے پیدا فرمائی کہ وہ اس سے زینت حاصل کریں اور نماز و طواف اور دیگر اوقات میں اسے پہنیں۔

زینت کی دو تفاسیر:

          زینت کی تفسیر میں دو قول ہیں :

(1)…جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں زینت سے مراد وہ لباس ہے جو ستر پوشی کے کام آئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)

(2)… امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ ’’زینت‘‘ زینت کی تمام اقسام کو شامل ہے اسی میں لباس اور سونا چاندی بھی داخل ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۲۳۰)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو شریعت حرام نہ کرے وہ حلال ہے۔ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جبکہ حلت کے لئے کوئی دلیل خاص ضروری نہیں۔

{ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ:اور پاکیزہ رزق۔} یعنی اس پاکیزہ رزق اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں کوکس نے حرام کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نکالیں۔مسئلہ :آیت اپنے عموم پر ہے اور کھانے کی ہرچیز اس میں داخل ہے کہ جس کی حرمت پر نص وارد نہ ہوئی ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)

آیت’’ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ ‘‘ کی روشنی میں چند لوگوں کو  نصیحت:

             اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔

(1)… پہلے نمبر پر وہ لوگ جو اپنے زہد وتقویٰ کے گھمنڈ میں لوگوں کی حلال اشیاء میں بھی تحقیق کرکے ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ یہ سخت ناجائز اور سراسر تقویٰ کے خلاف ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شرعِ مطہر میں مصلحت کی تحصیل سے مفسدہ کا ازالہ مقدم تر ہے مثلاً مسلمان نے دعوت کی (اور) یہ اس کے مال وطعام کی تحقیقات کر رہے ہیں ’’کہاں سے لایا؟ کیونکر پیدا کیا؟ حلال ہے یا حرام؟ کوئی نجاست تو اس میں نہیں ملی ہے کہ بیشک یہ باتیں وحشت دینے والی ہیں اور مسلمان پر بدگمانی کرکے ایسی تحقیقات میں اُسے ایذا دینا ہے خصوصاً اگر وہ شخص شرعاً معظم ومحترم ہو، جیسے عالمِ دین یا سچا مرشد یا ماں باپ یا استاذ یا ذی عزت مسلمان سردارِ قوم تو اِس نے (تحقیقات کر کے) اور بے جا کیا، ایک تو بدگمانی دوسرے مُوحِش (یعنی وحشت میں ڈالنے والی) باتیں ، تیسرے بزرگوں کا ترکِ ادب۔ اور (یہ خواہ مخواہ کا متقی بننے والا) یہ گمان نہ کرے کہ خفیہ تحقیقات کر لوں گا، حاشا وکلّا! اگر اسے خبر پہنچی اور نہ پہنچنا تعجب ہے کہ آج کل بہت لوگ پرچہ نویس (یعنی باتیں پھیلانے والے) ہیں تو اس میں تنہا بَررُو (یعنی اکیلے میں اس سے) پوچھنے سے زیادہ رنج کی صورت ہے کَمَاھُوَ مُجَرَّبٌ مَعْلُوْمٌ(جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہے۔ ت) نہ یہ خیال کرے کہ احباب کے ساتھ ایسا برتاؤ برتوں گا ’’ہیہات‘‘ احبا (دوستوں )کو رنج دینا کب روا ہے؟ اور یہ گمان کہ شاید ایذا نہ پائے ، ہم کہتے ہیں ’’شاید ایذا پائے، اگر ایسا ہی شاید پر عمل ہے تو اُس کے مال وطعام کی حلت وطہارت میں شاید پر کیوں نہیں عمل کرتا۔ مع ہذا اگر ایذا نہ بھی ہُوئی اور اُس نے براہِ بے تکلفی بتادیا تو ایک مسلمان کی پردہ دری ہوئی کہ شرعاً ناجائز۔ غرض ایسے مقامات میں ورع واحتیاط کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو اس طور پر بچ جائے کہ اُسے (یعنی مہمان نواز کو) اجتناب ودامن کشی پر اطلاع نہ ہو یا سوال وتحقیق کرے تو اُن امور میں جن کی تفتیش مُوجِبِ ایذا نہیں ہوتی مثلاً کسی کا جوتا پہنے ہے وضو کرکے اُس میں پاؤں رکھنا چاہتا ہے دریافت کرلے کہ پاؤں تر ہیں یوں ہی پہن لوں وعلٰی ہذا القیاس یا کوئی فاسق بیباک مجاہر معلن اس درجہ وقاحت وبے حیائی کو پہنچا ہوا ہو کہ اُسے نہ بتا دینے میں باک ہو، نہ دریافت سے صدمہ گزرے ، نہ اُس سے کوئی فتنہ متوقع ہو نہ اظہارِ ظاہر میں پردہ دَری ہو تو عندالتحقیق اُس سے تفتیش میں بھی حرج نہیں ، ورنہ ہرگز بنامِ ورع واحتیاط مسلمانوں کی نفرت ووحشت یا اُن کی رُسوائی وفضیحت یا تجسّس عیوب ومعصیت کا باعث نہ ہو کہ یہ سب امور ناجائز ہیں اور شکوک وشبہات میں ورع نہ برتنا ناجائز نہیں۔ عجب کہ امرِ جائز سے بچنے کے لئے چند ناروا باتوں کا ارتکاب کرے یہ بھی شیطان کا ایک دھوکا ہے کہ اسے محتاط بننے کے پردے میں محض غیر محتاط کردیا۔ اے عزیز! مداراتِ خلق والفت وموانست اہم امور سے ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۲۶-۵۲۷)

(2)… دوسرے نمبر پر ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو خود تو اپنے نفس پر سختی کرنے کی خاطر لذیذ غذاؤں کو ترک کرتے ہیں لیکن دوسرا شخص اگر ان غذاؤں کو استعمال کرتا ہے تو اسے نہایت نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی سراسر حرام ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بچنا چاہے (تو) بہتر وافضل اور نہایت محمود عمل مگر اس کے ورع کا حکم صرف اسی کے نفس پر ہے نہ کہ اس کے سبب اصلِ شے کو ممنوع کہنے لگے یا جو مسلمان اُسے استعمال کرتے ہوں اُن پر طعن واعتراض کرے ،اُنہیں اپنی نظر میں حقیر سمجھے، اس سے تو اس ورع کا ترک ہزار درجہ بہتر تھا کہ شرع پر افترا اور مسلمانوں کی تشنیع وتحقیر سے تو محفوظ رہتا۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۴۹)

          ایک اور مقام پر فرمایا: ’’فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ، نے آج تک اُس شکر کی صورت دیکھی، نہ کبھی اپنے یہاں منگائی، نہ آگے منگائے جانے کا قصد، مگر بایں ہمہ ہرگز ممانعت نہیں مانتا ،نہ جو مسلمان استعمال کریں اُنہیں آثم خواہ بیباک جانتا ہے ،نہ تو ورع و احتیاط کا نام بدنام کرکے عوام مومنین پر طعن کرے، نہ اپنے نفس ذلیل مہین رذیل کے لئے اُن پر ترفّع وتعلّی روا رکھے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۵۱-۵۵۲)

(3)…تیسرے نمبر پر وہ لوگ جو گیارہویں ، میلاد شریف، بزرگوں کی فاتحہ ،عرس ،مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی اور سبیل وغیرہ کے شربت کو ممنوع و حرام کہتے ہیں وہ بھی اس آیت کے صریح خلاف کرکے گناہ گار ہوتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں حلال ہیں اور انہیں ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت وضلالت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ یہ نہیں کہ انسان لذیذ حلال چیزیں چھوڑ دے بلکہ حرام سے بچنا تقویٰ ہے۔ حلال نعمتیں خوب کھاؤ پیو، محرمات سے بچو۔ نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لذّات کو ترک کرنے کے معاملے میں اعتدال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے اور رات کو قیام کرتے ہو۔ میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’ ایسا نہ کرو، بلکہ روزے رکھوا ور چھوڑ بھی دیا کرو، قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے۔ تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے تویہ ہمیشہ روزے رکھنے کی طرح ہو جائے گا۔ میں نے اصرار کیا تو مجھے زیادہ کی اجازت دی گئی۔ میں نے پھر عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے میں زیادہ طاقت پاتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام والے روزے رکھ لو اور ان سے زیادہ نہ رکھنا۔ میں نے عرض کی: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا: ایک دن رکھنا اور ایک دن چھوڑ دینا۔ بڑھاپے کے دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: کاش میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اجازت دینے کوقبول کر لیتا۔( بخاری، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، ۱ / ۶۴۹، الحدیث: ۱۹۷۵)

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک دین آسان ہے، اور جو اس سے مقابلہ کرے گا تو دین ہی اس پر غالب آئے گا، پس تم سیدھے رہو اور بشارت قبول کرو۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الدین یسر، ۱ / ۲۶، الحدیث: ۳۹)

 { قُلْ:تم فرماؤ۔} یہاں بتایا گیا کہ دنیاو آخرت کی نعمتیں اہلِ ایمان ہی کیلئے ہیں کیونکہ کفار نمک حرام ہیں اور نمک حراموں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا لیکن چونکہ دنیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک مہلت اور امتحان بھی رکھا ہے اس لئے کفار کو بھی اس میں سے مل جاتا ہے بلکہ مہلت کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ ہی ملتا ہے ۔ اس کے بالمقابل چونکہ آخرت میں نہ امتحان ہے اور نہ مہلت، لہٰذا وہاں صرف انہی کو ملے گا جو مستحق ہوں گے اور وہ صرف مومنین ہیں۔

             مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ معلوم ہوا کہ اچھی نعمتیں رب عَزَّوَجَلَّ نے مومنوں کے لئے پیدا فرمائی ہیں ، کفار ان کے طفیل کھا رہے ہیں۔ لہٰذا جو کوئی کہے کہ فقیری اس میں ہے کہ اچھا نہ کھائے، اچھا نہ پہنے وہ جھوٹا ہے۔ اچھا کھاؤ، اچھا پہنو (لیکن اس کے ساتھ) اچھے کام کرو۔ (اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:)

’’ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ‘‘ (مؤمنون: ۵۱)

              (پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔)