ترجمہ: کنزالایمان
اور وہ جو ایمان لائے اور طاقت بھر اچھے کام کیے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے وہ جنت والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے، وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور وہ جو ایمان لائے ۔} اس
سے پہلے چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لئے
وعید اور آخرت میں جو کچھ ان کے لئے تیار فرمایا اس کا ذکر کیا، اب ایمان والوں
سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا
اور آخرت میں جو کچھ ان کیلئے تیار فرمایا اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ جو لوگ ایمان
لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے تو وہ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں
گے۔ اس سے دومسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ایمان اعمال پر مقدم ہے، پہلے ایمان قبول
کیا جائے اور بعد میں نیک کام کئے جائیں ، دوسرا یہ کہ کوئی شخص نیک اعمال سے بے
نیاز نہیں چاہے کسی طبقے اور کسی جماعت سے اس کا تعلق ہو۔
{لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا
اِلَّا وُسْعَهَا:ہم کسی پر طاقت سے زیادہ
بوجھ نہیں رکھتے۔} اس آیت میں مسلمانوں کیلئے بہت پیاری تسلی ہے کہ اللہعَزَّوَجَلَّ کسی کو اس کی طاقت سے
زیادہ احکام کا پابند نہیں کرتا ۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں جانے
کیلئے کوئی بہت زیادہ مشقت برداشت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اکثر وبیشتر احکام وہ ہیں
جن پر آدمی نہایت سہولت کے ساتھ عمل کرلیتا ہے جیسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔
زکوٰۃ اور حج تو لازم ہی اس پر ہیں جواپنی سب ضروریات کے بعد زکوٰۃ اور حج کی
ادائیگی کی بقدر زائد رقم رکھتے ہوں۔ یونہی ماں باپ، بہن بھائیوں ، رشتے داروں اور
پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کی ادائیگی بھی عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ یونہی ذکرو درود بھی
روح کی غذا ہے اور یہی اعمال جنت میں لے جانے والے ہیں۔ تو جنت میں جانے کا راستہ اللہعَزَّوَجَلَّ نے نہایت آسان بنایا
ہے، صرف اپنی ہمت کا مسئلہ ہے۔[1]
[1]نیک اعمالکی رغبت پانے کے لئے کتاب’’جنت میں لے
جانے والے اعمال‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کامطالعہ بہت مفید ہے،یونہی دعوتِ
اسلامی کے ساتھ وابستگی بھی بہت فائدہ مند ہے۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)