Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 43 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُۚ-وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا- وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُۚ-لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّؕ-وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(43)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ نَزَعْنَا:اور ہم نے کھینچ لیا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان کیسا پیارا تقابل بیان فرمایا ہے کہ اُن کے نیچے آگ کے بچھونے تھے اور اِن کے محلات کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اُن کے گروہ ایک دوسرے پر لعنت کر رہے تھے اور اِن جنتیوں کے دلوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کینے کو نکال دیا اور یہ سب پاکیزہ دل والے ہوں گے۔ نہ تو دنیوی باتوں کا کینہ ان کے دلوں میں ہوگا اور نہ ہی جنت میں ایک دوسرے کے بلند مقامات و محلات پر حسد کریں گے بلکہ سب پیارو محبت سے رہ رہے ہوں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کے وصف ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض وکینہ اور حسد سے پاک رکھے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنت میں جانے سے پہلے سب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے، حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب مسلمانوں کی دوزخ سے نجات ہو جائے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان پل پر روک لیا جائے گا پھر ان میں سے جس نے جس کے ساتھ دنیا میں زیادتی کی ہو گی اس کا قصاص لیا جائے گا پس جب ان کوپاک اور صاف کر دیاجائے گا تب ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ِقدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے ان میں سے ہر ایک شخص کو جنت میں اپنے ٹھکانے کا دنیا کے ٹھکانے سے زیادہ علم ہوگا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، ۴ / ۲۵۶، الحدیث: ۶۵۳۵)
بغض و کینہ کی مذمت:
یہاں چونکہ بغض وکینہ کا تذکرہ ہوا اس کی مناسبت سے یہاں بغض و کینہ کا مفہوم اور اس کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جب آدمی عاجز ہونے کی وجہ سے فوری غصہ نہیں نکال سکتا تو وہ غصہ باطن کی طرف چلا جاتا ہے اور وہاں داخل ہو کر کینہ بن جاتا ہے۔ کینہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو بھاری جاننا، اس سے نفرت کرنا اور دشمنی رکھنا اور یہ بات ہمیشہ ہمیشہ دل میں رکھنا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، القول فی معنی الحقد ونتائجہ وفضیلۃ العفو والرفق، ۳ / ۲۲۳)
احادیث میں بغض وکینہ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں کے اعمال ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو۔ کہا جاتا ہے ’’اسے چھوڑ دو یا مہلت دو حتّٰی کہ یہ رجوع کر لیں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن الشحناء والتہاجر، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۶(۲۵۶۵))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بغض رکھنے والوں سے بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈڈالتا (یعنی تباہ کردیتا ) ہے ۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۲، الحدیث: ۷۳۹۶، الجزء الثالث)
نوٹ:بغض و کینہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ’’احیاء ُالعلوم‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔([1])
مسلمانوں کوآپس میں کیسا ہونا چاہیے اس کیلئے درج ذیل 5 احادیث کا مطالعہ فرمائیں :
(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائیں۔ (بخاری، کتاب الادب، باب تعاون المؤمنین بعضہم بعضاً، ۴ / ۱۰۶، الحدیث: ۶۰۲۶)یعنی جس طرح یہ ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہئے ۔
(2)…حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت و شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اوربے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کی شرارت سے امن ہو اور تم میں برا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور جس کی شرارت سے امن نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب الفتن، ۷۶-باب، ۴ / ۱۱۶، الحدیث: ۲۲۷۰)
(4)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی انّ من خصال الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۲(۴۵))
(5)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’گفتگو کرتے وقت اچھے طریقے سے بات کرنا، جب کوئی گفتگوکرے تو اچھے انداز میں اس کی بات سننا، ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا اور وعدہ پورا کرنا مومن کے اخلاق میں سے ہے ۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۶۳۷، الحدیث: ۵۹۹۷)
{ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ:اور وہ کہیں گے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} مؤمنین جنت میں داخل ہوتے وقت کہیں گے: تمام تعریفیں اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اچھے اعمال کی ہدایت دی اور ہمیں ایسے عمل کی توفیق دی جس کا یہ اجرو ثواب ہے اور ہم پر فضل و رحمت فرمائی اور اپنے کرم سے عذاب ِجہنّم سے محفوظ کیا۔
اچھے عمل کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد اور اس کا شکر جنت میں بھی ہو گا کیونکہ وہ حمد و شکر ہی کا مقام ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ علم و عمل اور ہدایت کی توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی عطا سے ہے لہٰذا کسی کو علم یا اچھے عمل کی توفیق ملے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرے اور اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق جانے ۔ اسی وجہ سے ہمیں بکثرت لاحول شریف پڑھنے کا فرمایا گیا ہے کیونکہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کا معنیٰ ہے کہ نیکی کی توفیق اور برائی سے بچنے کی طاقت نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق سے۔
{ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا:اورانہیں نداکی جائے گی کہ یہ جنت ہے، تمہیں اس کا وارث بنادیا گیا۔} مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا پکارے گا: تمہارے لئے زندگانی ہے کبھی نہ مرو گے، تمہارے لئے تندرستی ہے کبھی بیمار نہ ہوگے، تمہارے لئے عیش ہے کبھی تنگ حال نہ ہوگے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی دوام نعیم اہل الجنۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۱، الحدیث: ۲۲(۲۸۳۷))
جنت کو دو وجہ سے میراث فرمایا گیا۔ ایک یہ کہ کفار کے حصہ کی جنت بھی وہ ہی لیں گے یعنی کافروں کے ایمان لانے کی صورت میں جو جنتی محلات ان کیلئے تیار تھے وہ ان کے کفر کی وجہ سے اہلِ ایمان کو دیدئیے جائیں گے تو یہ گویا ان کی میراث ہوئی ۔ دوسرے یہ کہ جیسے میراث اپنی محنت و کمائی سے نہیں ملتی اسی طرح جنت کا ملنا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے ہوگا، اپنے اعمال تو ظاہری سبب ہوں گے اور وہ بھی حقیقتاًجنت میں داخلے کا سبب بننے کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے اعمال تو ہیں ہی ناقص، یہ تو صرف سابقہ نعمتوں کا شکرانہ بن جائیں یا جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بن جائیں تو بھی بہت ہے۔ ان کے بھروسے پر جنت کی طمع تو خود فریبی ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل:
یہاں مفسرین نے ایک بہت پیاری بات ارشاد فرمائی اور وہ یہ کہ جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی یعنی وہ اپنے عمل کی بات نہیں کریں گے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل کی بات کریں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب اس جنت کا وارث بنادیا گیا۔ گویا بندہ اپنے عمل کو ناچیز اور ہیچ سمجھ کر صرف اللہ کریم کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اس کے ناقص عمل کو بھی شرفِ قبولیت عطا فرماکر قابلِ ذکر بنادیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب جنت دیدی گئی۔
یہاں مفسرین نے یہ بحث بھی فرمائی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب کیا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل یا ہمارے اعمال۔ تو حقیقت یہی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہی ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘(الدخان: ۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمہارے رب کے فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
اور یہی مضمون حدیث ِ مبارک میں بھی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بھی نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’مجھے بھی نہیں ،مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت میں ڈھانپ لے، پس تم اخلاص کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)البتہ بہت سی آیات میں اعمال کو بھی جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا گیا ہے تو دونوں طرح کی آیات و احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ جنت میں داخلے کا حقیقی سبب تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے لیکن ظاہری سبب نیک اعمال ہیں۔
[1] … اسی موضوع سے متعلق کتاب’’بغض و کینہ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کابھی مطالعہ فرمائیں۔