ترجمہ: کنزالایمان
اور دوزخی بہشتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں اپنے پانی کا کچھ فیض دو یا اس کھانے کا جو اللہ نے تمہیں دیا کہیں گے بیشک اللہ نے ان دونوں کو کافروں پر حرام کیا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجہنمی جنتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں کچھ پانی دیدو یا اس رزق سے کچھ دیدو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ جنتی کہیں گے: بیشک اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ
النَّارِ:اورجہنمی پکاریں گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس
رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جباعراف والے جنت میں چلے جائیں گے تو دوزخیوں کو بھی
کچھ لالچ ہوگی اور وہ عرض کریں گے :یارب! جنت میں ہمارےرشتہ دار
ہیں ، ہمیں اجازت عطا فرما کہ ہم اُنہیں دیکھ سکیں اور ان سے بات کرسکیں۔چنانچہ
انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنےرشتہ
داروں کو جنت کی نعمتوں میں دیکھیں گے اور پہچانیں گے، لیکن اہلِ جنت ان دوزخی
رشتہ داروں کو نہ پہچانیں گے کیونکہدوزخیوں
کے منہ کالے ہوں گے، صورتیں بگڑ گئی ہوں گی، توو ہ جنتیوں کو نام لے لے کر پکاریں
گے، کوئی اپنے باپ کو پکارے گا، کوئی
بھائی کو اورکہے گا ،ہائے میں جل گیا مجھ پر پانی ڈالو اور تمہیں اللہعَزَّوَجَلَّ نے جو رزق دیا ہے ان
نعمتوں میں سے کھانے کو دو۔ ان کی پکار سن کر
جنتی کہیں گے: بیشک اللہعَزَّوَجَلَّ نے یہ
دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۹۸)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنتی مومن کو دوزخی کافر سے بالکل محبت نہ
ہو گی اور نہ ہی اس پر رحم آئے گا اگرچہ اس کا سگا باپ یا بیٹا یابہترین دوست ہو
،وہ اس کے مانگنے پر بھی اُدھر کچھ نہ پھینکے گا ۔ خیال رہے کہ یہاں حرام سے مراد
شرعی حرام نہیں کیونکہ وہاں شرعی احکام جاری نہ ہوں گے بلکہ مراد کامل محرومی ہے۔
نیز جنتیوں کا جہنمیوں کی مدد نہ کرنا کافر جہنمیوں کے متعلق ہے ورنہ جہنم کے
مستحق مسلمانوں میں سے بہت سے گناہگاروں کونیک رشتے داروں کی شفاعت نصیب ہوگی جیسے
حافظ ِ قرآن کے بارے میں حدیث میں تصریح ہے۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)