banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 53 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّۚ-فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُؕ-قَدْ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(53)

ترجمہ: کنزالایمان کاہے کی راہ دیکھتے ہیں مگر اس کی کہ اس کتاب کا کہا ہوا انجام سامنے آئے جس دن اس کا بتایا انجام واقع ہوگا بول اٹھیں گے وہ جو اسے پہلے سے بھلائے بیٹھے تھے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے تھے تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی جو ہماری شفاعت کریں یا ہم واپس بھیجے جائیں کہ پہلے کاموں کے خلاف کام کریں بیشک انہوں نے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور ان سے کھوئے گئے جو بہتان اٹھاتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہ توصرف قرآن کے کہے ہوئے آخری انجام کا انتظار کررہے ہیں ۔ جس دن وہ آخری انجام آئے گا تو جو اِس سے پہلے بھولے ہوئے تھے بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ تشریف لائے تھے ،توہیں کوئی ہمارے سفارشی جو ہماری شفاعت کردیں ؟یا ہمیں واپس بھیج دیا جائے تو ہم جو پہلے عمل کیا کرتے تھے اس کے برخلاف اعمال کرلیں ۔ بیشک انہوں نے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور ان سے کھوگئے جویہ بہتان باندھتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کاہے کی راہ دیکھتے ہیں۔} یعنی وہ کفار جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا، ان کا انکار کیا اور ان پر ایمان نہ لائے وہ صرف اس قرآن کے بیان کئے ہوئے آخری انجام کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ قیامت کے دن جب اس قرآن کا بتایا ہوا نجام آئے گا تو وہ کافرجو اس سے پہلے بھولے ہوئے تھے،نہ اس پر ایمان لاتے تھے اورنہ اس کے مطابق عمل کرتے تھے اقرا ر کرتے ہوئے بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے رسول جو تعلیمات لائے تھے وہ سب حق تھیں یعنی حشر و نشر، قیامت کے دن اٹھنا اور ثواب و عذاب یہ سب حق ہے۔ لیکن اس وقت ان کا اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا اور جب اپنی جانوں کو عذاب میں دیکھیں گے اور یہ نظارہ کریں گے کہ مسلمانوں کی شفاعت ہورہی ہے اور انبیاء و اولیاء ، علماء و صلحاء ،چھوٹے بچے، ماہِ رمضان اور خانہ کعبہ وغیرہ شفاعت کررہے ہیں ، تب کف ِافسوس ملتے ہوئے کہیں گے’’ ہے کوئی جو ہماری بھی سفارش کردے اور اگر یہ نہیں تو ہمیں دنیا میں ہی واپس بھیج دیا جائے تاکہ پہلے جو اعمال کئے تھے انہیں چھوڑ کر نیک اعمال کرلیں ، کفر کی بجائے ایمان لے آئیں ، معصیت ونافرمانی کی بجائے اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرلیں مگر نہ اُنہیں کسی کی شفاعت نصیب ہو گی اورنہ دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل کا وقت ضائع کر کے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور اب پچھتانے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچا۔

{ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ:اور ان سے کھوگئے ۔} کفار جوکہتے تھے کہ بت خدا کے شریک ہیں اور اپنے پجاریوں کی شفاعت کریں گے، اب آخرت میں اُنہیں معلوم ہوگیا کہ اُن کے یہ دعوے جھوٹے تھے۔

جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد:

            اوپر متعدد آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان کے مکالمے، جنتیوں کی نعمتیں اور جہنمیوں کے عذاب، جنتیوں کی خوشیاں اور جہنمیوں کی حسرتیں یہ سب چیزیں بیان کی گئیں۔ آیات میں جو کچھ بیان ہوا اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں اور کافروں کے انجام کا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اصحاب ِ اعراف کا بھی بیان ہے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے۔ اب یہاں مسلمانوں کا ایک وہ گروہ بھی ہوگا جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی اور یونہی وہ لوگ بھی ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود کسی گناہ پر پکڑے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو کفر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس میں وہ تمام ذرائع مثلاً فلمیں ، ڈرامے، مزاحیہ پروگرام اور دینی معلومات کی کمی داخل ہیں جو آج کے زمانے میں کفریات کا سبب بنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ کوئی مسلمان ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں جائے گا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ کچھ گناہگار مسلمان ضرور جہنم میں جائیں گے لہٰذا ہمیں جہنم کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیدُ المَعصُومِین ہیں لیکن اس کے باوجود تعلیمِ امت کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب ِ جہنم سے کس قدر پناہ مانگتے تھے اس کا اندازہ احادیثِ طیبہ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے ۔ یونہی صحابہ و تابعین اور بزرگانِ دین بھی ہمیشہ جہنم کے عذاب سے خائف اور لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ترغیب کیلئے یہاں چند احادیث و واقعات پیشِ خدمت ہیں :

(1)… حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (نسائی، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من عذاب القبر، ص۸۷۴، الحدیث: ۵۵۱۴)

(2)…حضرت حُمرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک مرتبہ) ان آیاتِ کریمہ:

’’ اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًاۙ(۱۲) وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًا‘‘ (مزمل۱۲، ۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنسنے والاکھانا اور دردناک عذاب ہے۔

کی تلاوت فرمائی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر غشی طاری ہو گئی۔ (الزہد لابن حنبل، تمہید، ص۶۲، رقم: ۱۴۶)

(3)… حضرت بَرَاء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی۔ پھر فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔ ‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)

(4)… حضرت سلیمان بن سحیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص نے بتایا جس نے خود حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز میں جھکتے، اٹھتے اور سوز و گدازکی حالت میں نماز ادا کرتے، اگر کوئی ناواقف شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اس حالت کو دیکھتا تو کہتا کہ ان پر جنون طاری ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ کیفیت جہنم کے خوف کی وجہ سے اس وقت ہوتی کہ جب آپ یہ آیت:

’’ وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا‘‘ (الفرقان:۱۳)

 ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔

            یا اس جیسی کوئی اور آیت تلاوت فرماتے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ، ۶ / ۲۶۴، الحدیث: ۳۵۸۲۶، الجزء الثانی عشر)

(5)…حضرت عبداللہ رومی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان ہوں اور مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے کس کی طرف جانے کا مجھے حکم دیا جائے گا تو میں اس بات کو اختیار کروں گا کہ میں یہ معلوم ہونے سے پہلے ہی راکھ ہو جاؤں کہ میں کہاں جاؤں گا۔( الزہد لابن حنبل، زہد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ص۱۵۵، رقم: ۶۸۶)

(6)…ایک انصاری نوجوان کے دل میں جہنم کا خوف پیدا ہوا تواس کی وجہ سے وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے، جب نبی ٔاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس سینے سے چمٹ گئے ، اس کے بعد ایک چیخ ماری اور ان کی روح پرواز کر گئی، غمگسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کے کفن دفن کی تیاری کرو، جہنم کے خوف نے اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ (الزہد لابن حنبل، زہد عبید بن عمیر، ص۳۹۴، رقم: ۲۳۴۹)

(7)…حضرت ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(مشہور تابعی بزرگ) حضرت طاؤس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (کا جہنم کے خوف کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آپ) سونے کے لئے بستر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے ، پھر ایسے تڑپنے لگتے جیسے دانہ ہنڈیا میں اچھلتا ہے، پھر اپنے بستر کی گدی بنا دیتے ، پھر اسے بھی لپیٹ دیتے اور قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاتے یہاں تک کے صبح ہو جاتی اور فرماتے ’’جہنم کی یاد نے عبادت گزاروں پر نیند حرام کر دی ہے۔ (التخویف من النار، الباب الثانی فی الخوف من النار۔۔۔ الخ، فصل من الخائفین من منعہ خوف جہنم من النوم، ص۳۷)

            اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم کے عذابات سے ڈرنے اور اپنی آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔