Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 54 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(54)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} گزشتہ آیات میں چونکہ قیامت کے احوال کا بڑی تفصیل سے تذکرہ ہوا اور یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت، قدرت، وحدانیت اوروقوعِ قیامت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و وحدانیت کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور چھ دن میں پیدا کیا جیسا کہ اِس آیت میں اور دیگر آیات میں فرمایا گیا۔ اگرآسمان و زمین ایک لمحے میں پیداہوتے تو کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے لیکن جب ان کی تخلیق ایک مخصوص مدت اور مخصوص طریقہ کار سے ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کو کسی اور نے وجود بخشا ہے۔ چھ دن میں تخلیق سے کیا مراد ہے ، اس کے متعلق بعض نے فرمایا کہ چھ دن سے مراد چھ ادوار ہیں اور اکثر نے فرمایا کہ دنیوی اعتبار سے جو چھ دن کی مقدار بنتی ہے وہ مراد ہے ۔ بہرحال جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ ہر صورت پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ ایک لمحہ میں یا اس سے کم میں زمین و آسمان پیدا فرما دیتا لیکن اتنے عرصے میں اُن کی پیدائش فرمانا بہ تقاضائے حکمت ہے اوراس میں بندوں کے لئے تعلیم ہے کہ بندے بھی اپنے کام میں جلدی نہ کیا کریں بلکہ آہستگی سے کریں۔
جلد بازی سے متعلق 2احادیث:
یہاں جلد بازی سے متعلق دو احادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت سہل بن ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ کام میں جلد بازی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۹)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شیخ عبدُ القیس سے فرمایا ’’ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ،بردباری اور جلد بازی نہ کرنا (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۸)۔ ([1])
{ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: پھر عرش پر جیسا اس کی شان کے لائق ہے اِستِواء فرمایا۔} استواء کا لغوی معنیٰ تو ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے بلند ہونا، کسی چیز کا کسی چیز پر بیٹھنا۔ یہاں آیت میں کیا مراد ہے اس کے بارے میں علماءِ کرام نے بہت مُفَصَّل کلام فرمایا ہے۔ ہم یہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک تصنیف کی روشنی میں ایک خلاصہ بیان کرتے ہیں جس سے اس آیت اور اس طرح کی جتنی بھی آیات ہیں ان کے بارے میں صحیح عقیدہ واضح ہوجائے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اَنْسَب (یعنی زیادہ مناسب) یہی ہے کہ آیاتِ مُتَشابہات سے ظاہراً سمجھ آنے والے معنی کوایک مناسب وملائم معنی کی طرف جو کہ مُحکمات سے مطابق اور محاورات سے موافق ہو پھیر دیا جا ئے تاکہ فتنے اور گمراہی سے نجات پائیں ، یہ مسلک بہت سے متاخرین علما ء کا ہے کہ عوام کی حالت کے پیشِ نظر اسے اختیار کیا ہے، اسے’’ مسلکِ تا ویل‘‘ کہتے ہیں ، یہ علماء آیت’ ’ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ‘‘کی تاویل کئی طرح سے فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس وواضح ہیں :
اول : استواء بمعنی’’ قہر وغلبہ ‘‘ہے، یہ معنی زبانِ عرب سے ثابت وپیدا (ظاہر) ہے، عرش سب مخلو قات سے اوپر اور اونچا ہے اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا ء فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوقات پرقاہر وغالب ہے۔
دوم : استواء بمعنی ’’عُلُوّ ‘‘ہے،ا ور علو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی صفت ہے ،علوِ مکان صفت نہیں بلکہ علوِ مالکیت و سلطان صفت ہے۔
سوم: استواء بمعنی ’’قصد وارادہ‘‘ ہے، یعنی پھر عرش کی طر ف متوجہ ہوا یعنی اس کی ا ٓفر نیش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی۔
چہا رم: استواء بمعنی ’’فراغ وتمامی کار ‘‘ ہے، یعنی سلسلہ خلق وآفر نیش کو عرش پر ختم فرمایا، اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی، دنیا وآخرت میں جو کچھ بنا یا اور بنائے گا دائرۂ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلو ق کو حاوی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۱۲۴- ۱۲۶ ملخصاً)
مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی29ویں جلد میں موجود سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالۂ مبارکہ ’’ قَوَارِعُ الْقَھَّار عَلَی الْمُجَسَّمَۃِ الْفُجَّار‘‘ (اللہ تعالیٰ کے لئے جسم ثابت کرنے والے فاجروں کارد) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ:رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانپ دیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ رات اور دن ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں ڈھانپنے سے مراد زائل کرنا ہے یعنی رات کا اندھیرا دن کی روشنی کو اور پھر آئندہ دن کی روشنی رات کے اندھیرے کو دور کر دیتی ہے نیز اِن رات دن میں سے ہر ایک دوسرے کے پیچھے جلد جلد چلا آرہا ہے کہ دن رات کا ایسا سلسلہ قائم فرمایا جوکبھی ٹوٹتا نہیں اور اس نے سورج ،چاند ، ستاروں کو بنایا اور ایسا بنایا کہ نہ کبھی خراب ہوں اور نہ کبھی ان کو تبدیل کیا جاسکے مگر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے۔ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے پابند ہیں۔ کائنات میں تخلیق اور تَصَرُّف کا حقیقی اختیار صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے اور اسی کی ذات خیر و برکت والی ہے کہ اسی کا فیضان جاری و ساری ہے اور سب برکتیں ، عنایتیں اور رحمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔
[1] …جلد بازی کی مذمت اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جلد بازی‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔