banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 8 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(8)

ترجمہ: کنزالایمان اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ:اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

وزن اور میزان کا معنی:

            وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

            جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)

قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :

            قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۲۰۲، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸، ملتقطاً)

             حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)

 حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱)

میزان سے متعلق دو اہم باتیں :

            یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :

(1)…صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔

(2)…میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔

میزانِ عمل کو بھرنے والے اعمال:

            اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ہم یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتے ہیں ، چنانچہ

          حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ۔‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۶۴۰۶)

حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔ (معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۳۰۲۴)

            حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)