Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 89 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَاؕ-وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَاؕ-وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَاؕ-رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(89)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ:اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کا جواب سن کر ان سے فرمایا تھا کہ’’کیا ہم تمہارے دین میں آئیں اگرچہ ہم اس سے بیزار ہوں ؟ اس پر انہوں نے کہا :ہاں پھر بھی تم ہمارے دین میں آ جاؤ ، تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے اس باطل دین سے ہمیں بچایا ہوا ہے اور تمہارے باطل دین کی قباحت اور اس کے فساد کا علم دے کر مجھے شروع ہی سے کفر سے دور رکھا اور میرے ساتھیوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی توفیق دے دی ہے تو اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں تو پھر بیشک ضرور ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوں گے اور ہم میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو گمراہ کرناچاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
شیطان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمراہ نہیں کر سکتا:
یاد رہے کہ گمراہ ہونے سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام خارج ہیں کیونکہ وہ قَطعی معصوم ہوتے ہیں اور شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا ۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ‘‘(حجر:۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں۔
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان کہ’’ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے آگے سرِ تسلیم خَم کرنا ہے۔
{ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا:ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔} یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہو گا سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ اَزل سے ہی جانتا ہے لہٰذا سعادت مند وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں سعید ہے اور بد بخت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں شَقی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)
یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہے جن میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم اور اس کی قدرت گھیرے ہوئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے اور اس اعتبار سے گھیرنے اور گھر نے سے پاک ہے۔ اس کی مزید تفصیل سورۂ نساء کی آیت نمبر126کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
{ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا:ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔} یعنی ہم نے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور شریر لوگوں سے خلاصی پانے میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا ۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۰۳)
توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، توکل ترک ِاسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرتے ہوئے مُسَبِّبُ الاسباب پر اعتماد کرنے کا نام ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ کر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵)
{ رَبَّنَا:اے ہمارے رب۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں دعا فرمائی ’’ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ زجاج نے کہا کہ اس کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے امر کو ظاہر فرما دے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے ان کا باطل پر ہونا اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مُتَّبِعِین کا حق پر ہونا ظاہر ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)