banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 95 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(94)ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(95)

ترجمہ: کنزالایمان اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا کہ وہ کسی طرح زاری کریں۔ پھر ہم نے برائی کی جگہ بھلائی بدل دی یہاں تک کہ وہ بہت ہوگئے اور بولے بیشک ہمارے باپ دادا کو رنج و راحت پہنچے تھے تو ہم نے انہیں اچانک ان کی غفلت میں پکڑ لیا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہ بھیجامگر ہم نے اس کے رہنے والوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ گڑگڑائیں ۔ پھر ہم نے بدحالی کی جگہ خوشحالی بدل دی یہاں تک کہ وہ بہت بڑھ گئے اور وہ کہنے لگے :بیشک ہمارے باپ دادا کو (بھی) تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑلیا اور انہیں اس کا کچھ علم نہ تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا:مگر ہم نے اس کے رہنے والوں کوپکڑا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص قوموں یعنی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوموں کے تفصیلی حالات اور ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے ان پر نازل ہونے والے عذاب اور اس کی کیفیت کا ذکر فرمایا، اب اس آیت اورا س سے اگلی آیت میں تمام امتوں کے اِجمالی حالات اور ایک عام اصول بیان کیا جارہا ہے کہ جس کے تحت سب قوموں سے برتاؤ ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی علاقے یا شہر میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام  مبعوث کئے گئے تووہ ا س جگہ بسنے والوں کو شرک سے بچنے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے۔ اپنی صداقت کے اظہار کے لئے روشن معجزات دکھاتے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ،مگر اس کے باوجود جب وہاں کے باسی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیتے اور اتنی واضح اور صاف نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آتے تو فوراً ہی ان پر عذاب نازل نہ کر دیا جاتا بلکہ پہلے انہیں طرح طرح کے مصائب و آلام، سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا تاکہ اس طرح ان کا دماغ ٹھکانے آئے اور باطل مذہب چھوڑکر حق مذہب کے سایۂ رحمت میں آ جائیں اور اگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہوتا تو پھر ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دئیے جاتے، اولاد کی کثرت، مال کی زیادتی، عزت و وقار میں اضافہ، قوت و غلبہ وغیرہ ہر طرح کی آسائشیں انہیں مہیاکر دی جاتیں تاکہ اس طرح وہ اپنے حقیقی محسن کو پہچان کر اس کی نافرمانی سے باز آجائیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر لیں لیکن اگر وہ مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے بعد بھی غفلت سے بیدار نہ ہوتے اور نعمتوں کی بہتات کے باوجود بھی ان کے دل اپنے مہربان اور کریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف مائل نہ ہوتے تو وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرتے۔ یہ سب بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش اور دیگر کفار کو خوف دلانا ہے تاکہ وہ اپنے کفر و سرکشی سے باز آ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزار و فرماں بردار بن جائیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۱۲۱، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، / ۲۷۷، جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۷۷، ملتقطاً۔)

{ قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ:بیشک ہمارے باپ دادا کو(بھی) تکلیف اورراحت پہنچتی رہی ہے۔} جب نافرمان قومیں مصائب وآلام کا شکار ہوئیں تو اس وقت ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ ان سختیوں اور تکالیف سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے لیکن وہ یہ کہہ کر اپنے دل کومنا لیتے کہ یہ تباہ کن بارش یا قحط سالی یا زلزلہ یا آندھی طوفان جس نے تباہی و بربادی مچادی اور سب کچھ نیست و نابود کردیا، یہ ہمارے باپ دادا کو بھی ایسے ہی تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی یہ ہماری کسی اخلاقی کمزوری، کاروباری بد دیانتی اور غریبوں پر ظلم وتَعَدّی کی سزا ہے بلکہ یہ سب موسمی تغیرات کا نتیجہ ہیں  اور زمانے کا دستور ہی یہ ہے کبھی تکلیف ہوتی ہے کبھی راحت ۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۳۲۱، ملخصاً)

ناگہانی آفات اور مسلمانوں کی حالتِ زار:

ان گزری ہوئی قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر تھوڑا غور کر لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ ایسی کون سی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے، اب بھی طوفان، زلزلے، سیلاب آتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی سائنسی تحقیقات پر غور کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوں ان کا تماشا دیکھا جاتا ہے ۔بقیہ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا، توبہ کی طرف راغب ہونا، بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنا، برے اعمال چھوڑ دینا، نیک اعمال میں مشغول ہوجانا، ظلم و ستم اور بددیانتی کو چھوڑ دینا یہ سب کچھ پھر بھی نہیں کیا جاتا بلکہ افسوس !ہمارے دل کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ طوفان کا سن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے خوشی خوشی ساحل سمند رکی طرف طوفان کا نظارہ کرنے دوڑتے ہیں ،گویا آنے والے طوفان جوممکن تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ہوں اسے بھی اپنی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ،زلزلہ یا سیلاب کی تباہی دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے ان مصیبت زدوں کی جان و مال اور عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالنے لگ گئے۔ ان مصیبت کے ماروں کے لئے امداد رقص و سُرور کی محفلیں سجا کر، بے حیاء عورتوں کے ڈانس دکھا کر ،فحش اور گندے گانے سنا کر جمع کرنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ بادل، آندھی وغیرہ کو دیکھ کر سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک کیا تھا اسے اِس حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز آندھی کو ملاحظہ فرماتے اور جب بادل آسمان پر چھا جاتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیَّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے ، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’ اے عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا! مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)