ترجمہ: کنزالایمان
کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں۔
یا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سو رہے ہوں ۔
یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اَفَاَمِنَ اَهْلُ
الْقُرٰى:کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے۔} یہاں بستیوں والوں سے مراد مکہ مکرمہ اور آس پاس
کی بستیوں والے ہیں
اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہراُس بستی کے افراد ہیں جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے نبی کو جھٹلایا۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں انہیں اللہعَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کی غفلت کے اوقات میں مثلاً رات کو سوتے وقت یا دن میں اس وقت جب یہ کھیل کود میں پڑے ہوں ان
پر اللہعَزَّوَجَلَّ کا عذاب نازل ہو جائے کیونکہ عذابِ الٰہی اکثر غفلت کے وقت آتا ہے اور غفلت
زیادہ تر رات کے آخری حصے میں یا پورے دن چڑھے ہوتی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۱۲۲)
ان آیات میں جہاں کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی نیک اعمال
کرنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے
رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی
حالت میں آئے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس چیز کی رغبت دی ہے اس میں رغبت رکھو اور جس چیز
سے یعنی اپنے عذاب، جھڑک اور جہنم سے ڈرایا ہے تو اس سے بچو اور ڈرو۔ اگر جنت کا
ایک قطرہ تمہارے ساتھ دنیا میں ہو جس میں تم اب موجود ہو تو وہ تمہارے لئے اسے اچھا کر دے اور اگر جہنم کا ایک قطرہ تمہاری اس دنیا
میں آجائے تو وہ اسے تم پر خراب کر دے (البعث والنشور للبیہقی، باب ما جاء فی طعام اہل النار وشرابہم، ص۳۰۳، الحدیث: ۵۴۶)۔([1])
[1]…نیک
اعمال کی رغبت اور جذبہ پانے اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اجاگر
کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے ساتھ وابستگی مفید ہے۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)