banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 98 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَﭤ(97)اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(98)

ترجمہ: کنزالایمان کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں۔ یا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سو رہے ہوں ۔ یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰى:کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے۔} یہاں بستیوں والوں سے مراد مکہ مکرمہ اور آس پاس کی بستیوں والے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہراُس بستی کے افراد ہیں جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے نبی کو جھٹلایا۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کی غفلت کے اوقات میں مثلاً رات کو سوتے وقت یا دن میں اس وقت جب یہ کھیل کود میں پڑے ہوں ان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نازل ہو جائے کیونکہ عذابِ الٰہی اکثر غفلت کے وقت آتا ہے اور غفلت زیادہ تر رات کے آخری حصے میں یا پورے دن چڑھے ہوتی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۱۲۲)

نیک اعمال کرنے اور عذابِ الٰہی سے ڈرنے کی ترغیب:

            ان آیات میں جہاں کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی نیک اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

             حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس چیز کی رغبت دی ہے اس میں رغبت رکھو اور جس چیز سے یعنی اپنے عذاب، جھڑک اور جہنم سے ڈرایا ہے تو اس سے بچو اور ڈرو۔ اگر جنت کا ایک قطرہ تمہارے ساتھ دنیا میں ہو جس میں تم اب موجود ہو تو وہ تمہارے لئے اسے اچھا کر دے اور اگر جہنم کا ایک قطرہ تمہاری اس دنیا میں آجائے تو وہ اسے تم پر خراب کر دے (البعث والنشور للبیہقی، باب ما جاء فی طعام اہل النار وشرابہم، ص۳۰۳، الحدیث: ۵۴۶)۔([1])


[1] نیک اعمال کی رغبت اور جذبہ پانے اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اجاگر کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے ساتھ وابستگی مفید ہے۔