banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 99 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ(99)

ترجمہ: کنزالایمان کیا اللہ کی خفی تدبیر سے نڈر ہیں تو اللہ کی خفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ:کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں۔} مکر کے لغوی معنی ہیں ’’خفیہ تدبیر‘‘  جبکہ عام محاورہ میں دھوکہ اور فریب کو’’ مکر‘‘ کہا جاتا ہے، یہاں اس کا لغوی معنی یعنی خفیہ تدبیر مراد ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خاص غضب کا ذکر ہے چنانچہ فرمایا گیا ’’کیا کفار اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں اور اس کے ڈھیل دینے اور دُنیوی نعمتیں دینے پر مغرور ہو کر اس کے عذاب سے بے فکر ہوگئے ہیں سن لو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں اور اس کے مخلص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے :

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کا دل سے نکل جانا سخت نقصان کا سبب ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ڈھیل یا اس کا کسی بندے کو گناہ پر نہ پکڑنا یہ اس کی خفیہ تدبیر ہے لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ ترغیب کے لئے چند حکایات پیش کی جاتی ہیں۔

(1)…حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے تو رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت کیا’’اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ انہوں نے عرض کی: جب سے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے ، میری آنکھیں اُس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں ڈال دیا جاؤں۔ (شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)

(2)… جب ابلیس کے مردود ہونے کا واقعہ ہوا تو حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رونے لگے تو رب تعالیٰ نے دریافت کیا (حالانکہ وہ سب جانتا ہے) ’’تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کی:اے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم تیری خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہیں۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تم اسی حالت پر رہنا (یعنی کبھی مجھ سے بے خوف مت ہونا)۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الانبیاء والملائکۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳)

(3)…حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک باغ کی دیوار کے پاس دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے فرما رہے تھے ’’واہ ! لوگ تجھے امیر المؤمنین کہتے ہیں  اور تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہیں ڈرتا ، اگر تونے رب تعالیٰ کا خوف نہ رکھا تو اس کے عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل ششم، مقام سیم، ۲ / ۸۹۲)

(4)…حضرت ربیع بن خیثم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی صاحب زادی نے ان سے کہا :ابا جان! میں دیکھتی ہوں کہ سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: اے میری نورِ نظر! تیرا باپ رات کو سونے سے ڈرتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کااشارہ اوپر مذکور آیت کی طرف تھا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۳۷۷)

(5)… حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چالیس برس تک نہیں ہنسے ، جب ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا ایک قیدی ہیں جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہو، اور جب گفتگو فرماتے تو انداز ایسا ہوتا گویا آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ، اور جب خاموش رہتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کی آنکھوں میں آگ بھڑک رہی ہے ، جب اُن سے اس قدر غمگین وخوف زدہ رہنے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا ’’مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے بعض ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غضب فرمایا اور یہ فرما دیا کہ جاؤ! میں تمہیں نہیں بخشتا تو میرا کیا بنے گا؟ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الصحابۃ والتابعین۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۱)

            اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین