banner image

Home ur Surah Al Balad ayat 1 Translation Tafsir

اَلْبَـلَد

Al Balad

HR Background

لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ(2)

ترجمہ: کنزالایمان مجھے اس شہر کی قسم ۔ کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان مجھے اِس شہر کی قسم۔ جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ: مجھے اِس شہر کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں  تشریف فرما ہو۔

مکہ مکرمہ کے فضائل:

            یہاں  اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللّٰہ  تعالیٰ نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں  موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ’’اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) فِیْهِ  اٰیٰتٌۢ  بَیِّنٰتٌ  مَّقَامُ  اِبْرٰهِیْمَ  ﳛ  وَ  مَنْ دَخَلَهٗ  كَانَ  اٰمِنًا‘‘(ال عمران:۹۶، ۹۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں  کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں  ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں  کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں  کھلی نشانیاں  ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں  داخل ہوا امن والا ہوگیا۔

            اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں  کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘‘( بقرہ:۱۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو!تم جہاں  کہیں  ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔

            اور اس میں  موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں  مسلمانوں  کو حکم دیا:

’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘(بقرہ:۱۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کےکھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔

            اور لوگوں  کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا‘‘(ال عمران:۹۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ کے لئے لوگوں  پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔

            اور خانہ کعبہ کے بارے میں  ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا‘‘(بقرہ:۱۲۵۔)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں  کے لئے مرجع اور امان بنایا۔

            اورسورۂ بلد کی دوسری آیت میں  گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں  تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۱۶۴)

            حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’علماء فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘ اس میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس مبارک شہر میں  نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘ یعنی مکان کی بزرگی اس میں  رہنے والے سے ہے۔

            مزید فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں  اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں  کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں  کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، ۱ / ۶۵)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں ،

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا 

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

مدینہ منورہ کے فضائل:

            اور جب اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو اس مقام کو کیا کیا عظمتیں  حاصل ہوئیں  ،ان میں  سے 7عظمتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے ا س بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں  کو کھا جاتی ہے،لوگ اسے یَثْرِب کہتے ہیں  حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ برے لوگوں  کو ا س طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ وانّہا تنفی الناس، ۱ / ۶۱۷، الحدیث: ۱۸۷۱)

(2)… حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام ’’طابہ‘‘ رکھا ہے۔( مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص۷۱۷، الحدیث: ۴۹۱(۱۳۸۵))

(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مدینہ منورہ کے دونوں  پتھریلے کناروں  کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیاگیا ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، ۱ / ۶۱۶، الحدیث: ۱۸۶۹)

(4)… حضرت سہل بن حنیف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا’’ بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، ۶ / ۹۲، الحدیث: ۵۶۱۱)

(5)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللّٰہ!، جتنی برکتیں  مکہ میں  نازل کی ہیں  ا س سے دگنی برکتیں  مدینہ میں  نازل فرما۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۱-باب، ۱ / ۶۲۰، الحدیث: ۱۸۸۵)

(6)…حضرت عبداللّٰہ بن زید انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں  میں  سے ایک باغ ہے۔( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۵)

(7) …حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو مدینہ منورہ میں  موت آ سکے تو اسے یہاں  ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں  یہاں  مرنے والوں  کی (خاص طور پر) شفاعت کروں  گا۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں  مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں  بند

سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے