banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 177 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(177)

ترجمہ: کنزالایمان کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلوبلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔} مفسرین نے اس آیت کا خاص شانِ نزول بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ خطاب اہلِ کتاب اور مؤمنین سب کو ہے اور معنی یہ ہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلینا اصل نیکی نہیں جب تک عقائد درست نہ ہوں اور دل اخلاص کے ساتھ ربِّ قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری اعمال کو بجالاتے ہوئے اور دوسروں کے عمل کو حقیر اور معمولی نہ سمجھتے ہوئے کسی خاص عمل کو زیادہ رغبت و محبت اور کثرت کے ساتھ کرنا تو درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ضروری عمل مثلاً فرائض و واجبات ترک کرنے کی صورت میں یا اپنے عمل اور طریقے کے علاوہ دوسروں کے عمل اور طریقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کسی ایک عمل کوہی اچھا سمجھنا سراسر باطل اور غلط ہے۔ مثلاً ایک آدمی روزوں کی کثرت کرتا ہے تو وہ روزے نہ رکھنے والے کو حقیر نہ سمجھے، یونہی ذکرودرود کی کثرت کرنے والا تبلیغِ دین میں مشغول آدمی کو کم تر نہ سمجھے، یونہی وعظ و نصیحت کرنے والاتحریرو تصنیف اور تدریس سے دین کی خدمت کرنے والے کو کم ترنہ سمجھے۔ یہودیوں کا رد اسی وجہ سے کیا گیا کہ ایمان صحیح اور اعمالِ صالحہ کی طرف تو آتے نہ تھے ، رشوت،حرام خوری، سود، فیصلہ کرنے میں ناانصافی، بغض و کینہ اور دیگر گناہوں میں تو دلیر تھے اور قبلہ کے مسئلہ میں حق بات معلوم ہونے کے باوجود بلاوجہ جھگڑتے تھے اور ایک خاص قبلے والا ہونے کو کافی سمجھتے تھے۔ آیت سے معلو م ہوا کہ اعمال سے ایمان مقدم ہے ، پہلے ایمان لاؤ، پھر نیک عمل کرو کیونکہ جڑ شاخوں سے پہلے ہوتی ہے۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال شاخیں ، ایمان میں سب سے اول اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔

{مَنْ اٰمَنَ: جو ایمان لائے۔} آیت کے اس حصے سے لے کر آخر تک نیکی کے چھ اہم طریقے ارشاد فرمائے گئے ہیں : (۱) ایمان لانا۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دینا۔ (۳) نماز قائم کرنا۔ (۴) زکوٰۃ دینا۔ (۵) عہد پورا کرنا۔ (۶) مصیبت ، سختی اور جہاد میں صبر کرنا۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

ایمان کی تفصیل:

ایمان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے کہ وہ حی و قیوم ، علیم وحکیم، سمیع وبصیر ، غنی وقدیر، ازلی و ابدی،واحد، لاشریک لہ ہے۔

دوسرا قیامت پر ایمان لائے کہ وہ حق ہے، اس میں بندوں کا حساب ہوگا، اعمال کی جزا دی جائے گی، مقبولانِ بارگاہِ الہٰی شفاعت کریں گے، حضورسید ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سعادت مندوں کو حوض کوثر پر سیراب فرمائیں گے ،پل صراط پر گزر ہوگا اور اس روز کے تمام احوال جو قرآن میں آئے یا سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بیان فرمائے سب حق ہیں۔

تیسرا فرشتوں پر ایمان لائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور فرمانبردار بندے ہیں ، نہ مردہیں نہ عورت ،ان کی تعداد اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔چار ان میں سے بہت مقرب ہیں : (1)حضرت جبرئیل۔ (2)حضرت میکائیل۔ (3)حضرت اسرافیل۔ (4) حضرت عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام ۔

چوتھا کتب الہٰیہ پر ایمان لانا کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی حق ہے ان میں چار بڑی کتابیں ہیں : (1) توریت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (2) انجیل جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (3) زبور جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (4) قرآن، جو کہ حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوئی اور اس کے علاوہ حضرت شِیث، حضرت ادریس ،حضرت آدم اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے صحیفے نازل ہوئے۔

پانچواں تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں اور معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں۔ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ جانتا ہے ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ص۴۷-۴۸)

یاد رہے کہ ایمان مفصل جو بچوں کو سکھایا جاتا ہے، اس کی اصل یہ آیت بھی ہے اور اس کے علاوہ دوسری آیات بھی ہیں۔

{وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ: اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے۔}اس سے پہلے ایمان کا بیان ہوا اور اب اعمال کا ذکر کیا جا رہا ہے اورآیت کے اس حصے میں نیکی کا دوسرا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دیا جائے۔

مال کے مستحق افراد اور انہیں مال دینے کے فضائل کا بیان:

اس آیت میں مال دینے کے 6 مصرف ذکر فرمائے گئے ہیں :

(1)…رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کرنے کا اورایک صلہ رحمی کرنے کا۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)

حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے ا فضل صدقہ کنارہ کشی اختیار کرنے والے مخالف رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے۔(معجم الکبیر، حکیم بن بشیر عن ابی ایوب، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۳۹۲۳)

(2)… یتیموں پر خرچ کرنا۔ جس نابالغ شخص کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو اسے یتیم کہتے ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے، میں اور وہ کفالت کرنے والادونوں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری، کتاب الادب، باب فضل من یعول یتیمًا، ۴ / ۱۰۱، الحدیث: ۶۰۰۵)

(3)… مسکینوں پر خرچ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسکین وہ نہیں جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے اور ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھرمسکین کون ہے؟ ارشاد فرمایا جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اسے مستغنی کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی اور فقر کا پتا چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی۔۔۔ الخ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۱(۱۰۳۹))

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ایک لقمہ روٹی اور ایک مُٹھی خُرما اور اس کی مثل کوئی اور چیز جس سے مسکین کو نفع پہنچے، اُن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے، ایک صاحب خانہ جس نے حکم دیا، دوسری زوجہ کہ اسے تیار کرتی ہے، تیسرے خادم جو مسکین کو دے کر آتا ہے، پھر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حمد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے جس نے ہمارے خادموں کو بھی نہ چھوڑا۔ (یعنی رحمت سے محروم نہ چھوڑا۔)(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)

(4)… مسافروں پر خرچ کرنا۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مومن کو اس کے عمل اور نیکیوں سے مرنے کے بعد بھی یہ چیزیں پہنچتی رہتی ہیں۔ علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اشاعت کی ۔ نیک اولاد جسے چھوڑ کر مرا ہے یا مُصحف جسے میراث میں چھوڑا یا مسجد بنائی یا مسافر کے لیے مکان بنادیا نہر جاری کردی یا اپنی صحت اور زندگی میں اپنے مال میں سے صدقہ نکال دیا جو اس کے مرنے کے بعد اس کو ملے گا۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب ثواب معلّم الناس الخیر، ۱ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۴۲)

(5)…سائلوں کو دینا۔ یاد رہے کہ صرف ا س سائل کو اپنا مال دے سکتے ہیں جسے سوال کرنا شرعی طور پر جائز ہو جیسے مسکین، جہاد اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول افراد وغیرہ، اور جسے سوال کرنا جائز نہیں اس کے سوال پر اسے دینا بھی ناجائز ہے اور دینے والا گناہگار ہو گا، البتہ بعض لوگوں کو سوال کرنا جائز نہیں ہوتا لیکن ضرورت مند ہوتے ہیں انہیں بغیر مانگے دینا جائز ہے جیسے فقیر۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں ، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے، بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایۂ عزت جانتے ہیں اور بہت ساروں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں ، سود کا لین دین کرتے، زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔(بہار شریعت، حصہ پنجم، سوال کسے حلال ہے اور کسے نہیں ، ۱ / ۹۴۰-۹۴۱)

(6)…گردنیں چھڑانے میں خرچ کرنا۔ گردنیں چھڑانے سے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنا مراد ہے۔ حضرت ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو مسلمان مرد کسی مسلمان مرد کو آزاد کرے گا، اللہ تعالیٰ غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے نجات دے گا۔ حضرت سعید بن مرجانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :جب میں نے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ حدیث سنی اورمیں نے جا کر اس کا ذکر حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے کیا تو انہوں نے اپنے ایک ایسے غلام کو آزاد کر دیا جس کی حضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے۔(مسلم، کتاب العتق، باب فضل العتق، ص۸۱۲، الحدیث: ۲۴(۱۵۰۹))

یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر صدقات ِ واجبہ ہوں تو اس کے دیگر احکام کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔

راہ خدا میں کیسا مال دینا چاہئے ؟

اللہ تعالیٰ کی راہ میں رضائے الہٰی کی خاطر پیارا مال دینا چاہیے نیز زندگی و تندرستی میں دے جب خود اسے بھی مال کی ضرورت ہو کیونکہ اس وقت مال زیادہ پیارا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(دہر:۸، ۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں خاص اللہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر یہ نہیں چاہتے۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ(ال عمران:۹۲)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک آدمی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ،کونسا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’جب کہ تم تندرستی کی حالت میں صدقہ دو اور تمہیں خود مال کی ضرورت ہو اور تنگدستی کاخوف بھی ہو اور مالداری کا اشتیاق بھی۔ یہ نہ ہو کہ جان گلے میں آ پھنسے اور کہے کہ اتنا فلاں کے لئے اور اتنافلاں کے لئے حالانکہ اب تو وہ فلاں کا ہوچکا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب ایّ الصدقۃ افضل۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۹، الحدیث: ۱۴۱۹)

{وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ: اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے۔}آیت کے اس حصے میں نیکی کا تیسرا اور چوتھا طریقہ بیان کیا گیا کہ فرض نمازیں ان کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرے اور اس کے مال میں جو زکوٰۃ واجب ہو اسے ادا کرے۔

{وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ: اور اپنے عہد پورا کرنے والے۔}یہاں نیکی کے پانچویں طریقے کابیان ہے اور اس آیت میں عہد سے سارے جائز وعدے مراد ہیں خواہ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوں یا رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یا اپنے شیخ سے یا نکاح کے وقت بیوی سے یا کسی اور سے جیسے حکمرانوں کے وعدے عوام سے، بشرطیکہ جائز وعدے ہوں ، ناجائز وعدوں کو پورا کرنے کی اجازت نہیں۔

{وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ:اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے۔} آیت کے اس حصے میں نیکی کے چھٹے طریقے کا بیان ہے کہ فَقر و فاقہ اور بیماری وغیرہ کی مصیبت و سختی میں اور راہ خدا میں ہونے والی جنگ میں قتال کے وقت صبر کیا جائے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ۱ / ۱۱۵)

یاد رہے کہ اس آیت میں صبر کے چند مقامات بیان ہوئے ،ان کے علاوہ بھی صبر کے بہت سے مقامات ہیں ، نیز صبر کے فضائل سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 153کے تحت گزر چکے ہیں۔

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ }یعنی صحیح عقائد رکھنے والے اور نماز، زکوٰۃ، صدقات کے عامل، صبر کے عادی، وعدے کے پابند اور نیک اعمال کرنے والے ہی اپنےدعوی ایمان میں کامل طور پرسچے ہیں جو کفر اور دیگرتمام گناہوں سے بچنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے ایمان کا دعویٰ پرکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔