Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 178 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(178)
تفسیر: صراط الجنان
{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى: تم پر مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا فرض کردیا گیا۔} یہ آیت اَوس اور خَزرج کے بارے میں نازل ہوئی ،ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت، تعداد، مال و شرف میں زیادہ تھا۔ اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا، زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی زیادتیوں کے عادی تھے۔ عہد اسلام میں یہ معاملہ حضور سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا ۔ا س پر وہ لوگ راضی ہوئے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱ / ۲۱۳)
قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے، اس آیت میں قصاص اور معافی دونوں مسئلے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص اورمعافی میں اختیار دیا ہے۔اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول سے اسلام کی نظر میں خونِ انسان کی حرمت کا بھی علم ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو، مرد کو قتل کیا ہو یا عورت کو کیونکہ آیت میں ’’قَتْلٰى‘‘ کا لفظ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے۔ البتہ کچھ افراد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گاخواہ آزاد ہو یا غلام ،مرد ہو یا عورت اور زمانۂ جاہلیت کی طرح نہیں کیا جائے گا ، ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے، غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے، عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ بعض اوقات بہت بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھتے۔ ان سب چیزوں سے منع کردیا گیا ۔
{فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ: تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دیدی جائے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جس قاتل کو مقتول کے اولیاء کچھ معاف کریں جیسے مال کے بدلے معاف کرنے کا کہیں تو یہاں قاتل اور اولیاءِ مقتول دونوں کو اچھا طریقہ اختیار کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ مقتول کے اولیاء سے فرمایا کہ اچھے انداز میں مطالبہ کریں ، شدت و سختی نہ کریں اور قاتل سے فرمایا کہ وہ خون بہاکی ادائیگی میں اچھا طریقہ اختیار کرے ۔ آیت میں قاتل اور مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قتل اگرچہ بڑاگناہ ہے مگر اس سے ایمانی بھائی چارہ ختم نہیں ہوجاتا۔ اس میں خارجیوں کے مذہب کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں۔اہلسنّت کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں۔
(1)… مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بغیر عوض معاف کردے یامال پر صلح کرے اوراگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱ / ۲۱۳)
(2) …اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۵۲)
مزید تفصیلات کیلئے بہارِ شریعت حصہ 17کا مطالعہ فرمائیں۔
{فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ: تو جو اس کے بعد زیادتی کرے۔}یعنی دستورِ جاہلیت کے مطابق غیر ِقاتل کو قتل کرے یادِیَت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۹۵)