banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 198 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْۚ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ(198)

ترجمہ: کنزالایمان تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو جب عرفات سے پلٹو تو اللہ کی یاد کرو مشعر حرام کے پاس اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی اور بیشک تم اس سے پہلے بہکے ہوئے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کروکیونکہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم یقینابھٹکے ہوئے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ: تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ }شان نزول: بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہِ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلائے اس کا حج ہی ضائع ہوگیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(ابو داؤد، کتاب المناسک،باب الکریّ، ۲ / ۱۹۸، الحدیث: ۱۷۳۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ جب تک تجارت سے افعال حج کی ادا میں فرق نہ آئے اس وقت تک تجارت کی اجازت ہے۔نیز یہاں مال کو رب عَزَّوَجَلَّ کافضل قرار دیا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ مال فی نفسہ بری چیز نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔ ہزاروں نیکیاں صرف مال کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہیں جیسے زکوٰۃ و صدقات و حج و عمرہ وغیرہ۔

{فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو۔} عرفات ایک مقام کا نام ہے جوحج میں وقوف (یعنی ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ مشہور مفسر ضحاک کا قول ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا جدائی کے بعد 9ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر جمع ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا اس لیے اس دن کا نام عرفہ اور مقام کانام عرفا ت ہوا۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۹۸، ۱ / ۳۲۰، الجزء الثانی)

            ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس روز بندے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے اس دن کا نام عرفہ ہے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۱ / ۱۴۰)

            حاجی کیلئے9ذی الحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر 10ذی الحجہ کی صبح صادق سے پہلے تک کم از کم ایک لمحے کیلئے عرفات میں وقوف فرض ہے ۔(بہار شریعت،حصہ ششم، ۱ / ۱۱۴۷)

            اور 9تاریخ کواتنی دیر وقوف کرنا کہ وہیں سورج غروب ہوجائے یہ واجب ہے۔ (عالمگیری، کتاب المناسک، الباب الخامس، ۱ / ۲۲۹)

{عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ: مشعر حرام کے پاس۔}مَشْعَرِحرام مُزدلفہ میں وہ جگہ ہے جہاں امامِ حج وقوفِ مزدلفہ کرتا ہے۔ مزدلفہ میں واقع وادی مُحَسِّرْکے سوا تمام مزدلفہ وقوف کا مقام ہے ۔ مزدلفہ میں رات گزارنا سنت ہے اور فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر طلوعِ آفتاب کے دوران کم از کم ایک لمحے کیلئے وہاں ٹھہرنا واجب ہے ۔ بغیر عذر وقوفِ مزدلفہ ترک کرنے سے د م لا زم آتا ہے اور مشعر حرام کے پاس وقوف افضل ہے ۔مزدلفہ میں وقوف کے دوران تَلْبِیَہ، تہلیل و تکبیر اور ثناء و دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے۔ 9ذوالحجہ کو مزدلفہ میں نما زِ مغرب وعشاء کو ملا کر عشاء کے وقت میں پڑھنا ہوتا ہے۔

{وَ اذْكُرُوْهُ: اور اسے یاد کرو۔} فرمایا گیا کہ تم ذکر و عبادت کا طریقہ نہ جا نتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے تمہیں عبادت کے طریقے سکھائے لہٰذا اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔