Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 199 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(199)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ: پھر تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں۔}قریش مزدلفہ میں ٹھہرے رہتے تھے اور سب لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف نہ کرتے، جب لوگ عرفات سے پلٹتے تو یہ مزدلفہ سے پلٹتے اور اس میں اپنی بڑائی سمجھتے، اس آیت میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بھی سب کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں اور ایک ساتھ واپس لوٹیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱ / ۱۴۱)یہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ۔
اسلامی احکام سب کے لئے برابر ہیں :
اس سے معلوم ہواکہ اسلامی احکام برادریوں کے اعتبار سے نہیں بدلتے اور نہ ہی کسی کے رتبے اور مقام کی وجہ سے ان میں تبدیلی ہوتی ہے بلکہ امیر و غریب، گورے کالے، عربی عَجمی سب کے لئے اسلام کے احکام برابر ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: قریش ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت ہی پریشان تھے جس نے چوری کی تھی، لوگ کہنے لگے کہ اس بارے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو کون کرے؟ بعض آدمیوں نے کہا کہ حضرت اسامہ بن زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سوا ا یسی جرأت اور کون کر سکتا ہے کیونکہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہیتے ہیں۔جب حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس بارے میں حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا:’’کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:’’بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے تھے کہ جب کوئی مالدار چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔خدا کی قسم!اگرمحمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)
تاریخ اسلام میں مسلمان قاضیوں کے ایسے بے شمار واقعات موجودہیں جس میں انہوں نے کسی کے رتبے اور قرابت داری کی پرواہ کئے بغیر شریعت کے احکام کو نافذ کیا،انہی واقعات میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔چنانچہ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خلیفہ ولید بن یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کے قاضی مقرر تھے ۔ایک مرتبہ ولید نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے پاس ملک شام میں بلایا، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بااعتماد شخص کو مدینہ منورہ میں قاضی بناکر خود ملک شام کی جانب چل دیئے۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شام کی سر حد پر پہنچے تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو شہر سے باہر ہی روک دیا گیااور کافی عرصہ تک داخلہ کی اجازت نہ ملی ۔ ایک رات آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مسجد میں مصروف عبادت تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ نشے کی حالت میں بدمست ہے او رمسجد میں گھوم رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پوچھا : ’’یہ شخص کون ہے ؟ لوگو ں نے بتا یا: یہ خلیفہ ولید بن یزید کا ماموں ہے، اس نے شراب پی ہے اور اب نشے کی حالت میں مسجد کے اندر گھوم پھر رہا ہے۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بہت جلال آیا کہ یہ کتنی دیدہ دِلیری سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کے پاک دربار میں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے غلام کودُرَّہ لانے کا حکم فرمایا۔ غلام نے درہ (کوڑا) دیا ۔ درہ لے کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:’’ مجھ پر لازم ہے کہ میں اس پر شرعی سزا نافذ کروں چاہے یہ کوئی بھی ہو، اسلام میں سب برابر ہیں۔ چنانچہ آپ آگے بڑھے اور مسجد میں ہی اس کو80 کوڑے مارے ۔ وہ شخص80کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا اور پوچھا’’ تمہاری یہ حالت کس نے کی؟ کس نے تمہیں اِتنا شدید زخمی کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا، اس نے مجھے80کوڑے سزا دی اور کہا: ’’یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراً حکم دیا کہ ہماری سواری تیار کی جائے، اسی وقت حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کچھ سپاہیوں کو لے کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس پہنچ گیا اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا:’’ اے ابو اسحاق ! تو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا، اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی؟ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:’’ اے خلیفہ! تونے مجھے قاضی بنایا تا کہ میں شریعت کے احکام نافذ کروں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دوں۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرِعام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جا رہی ہے اور یہ شخص نشے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میری غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی دیکھوں اور تمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدو د قائم نہ کروں۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والاربعون بعد المائۃ، ص۱۶۳-۱۶۴، ملتقطاً)