ترجمہ: کنزالایمان
اور اگر تم سفر میں ہواور لکھنے والا نہ پاؤ تو گِرَو ہو قبضہ میں دیا ہوا اور اگر تم میں ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو (قرض خواہ کے) قبضے میں گِروی چیز ہو اور اگر تمہیں ایک دوسرے پر اطمینان ہوتو وہ (مقروض) جسے امانت دار سمجھا گیا تھا وہ اپنی امانت ادا کردے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ: اور اگر تم سفر میں
ہو۔}
یہاں گروی رکھنے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم حالت ِ سفر میں ہو اور قرض کی
ضرورت پیش آجائے اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے یا لکھنے کا موقع نہ ملے کہ
اوپر بیان کئے گئے حکم پر عمل ہوسکے تو مقروض قرض خواہ کے قبضے میں کوئی چیز رہن
رکھوا دے ۔ ہاں اگر تمہیں ایک دوسرے پر اعتماد ہو اور اس وجہ سے تم کوئی تحریر
وغیرہ نہ لکھو تو اب مقروض کو چاہیے کہ جب اسے امانت دار سمجھا گیا ہے تو وہ اس
حسنِ ظن کو پورا کرے اور اپنی امانت یعنی قرض وقت پر ادا کردے اور اس ادائیگی میں اللہ
تعالیٰ سے ڈرے۔
(1)… قرض وغیرہ ادھار کے معاملات میں رہن
رکھنے کا حکم استحبابی ہے۔
(2)… حالتِ سفر میں رَہن یعنی گروی رکھنا آیت
سے ثابت ہوا اور غیر سفر کی حالت میں حدیث سے ثابت ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری اور
سنن ترمذی میں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ میں اپنی زرہ مبارک یہودی
کے پاس گروی رکھ کر بیس صاع جَو لئے تھے۔ (بخاری،
کتاب البیوع، باب شراء النبی صلی
اللہ علیہ وسلم
بالنسیئۃ، ۲ / ۱۰،
الحدیث: ۲۰۶۹،ترمذی، کتاب
البیوع، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الشراء الی الاجل، ۳ / ۸، الحدیث: ۱۲۱۹)
(3)…
جس چیز کو گروی رکھا جائے وہ قرض خواہ کے قبضہ میں دینا ضروری ہے۔ بغیر قبضہ کے
رہن نہیں ہوسکتا۔(فتاوی رضویہ، ۲۵ / ۲۴۷)
رہن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے
بہار شریعت جلد 3 حصہ 17سے رہن کا بیان مطالعہ فرمائیں۔
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282اور
283سے متعلق اہم تنبیہ:
اس رکوع کی دونوں آیات پر غور کریں اور سمجھیں
کہ اللہ
تعالیٰ نے ہمارے خالصتاً دنیاوی مالی معاملات
میں بھی ہمیں کتنے واضح حکم ارشاد فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کامل
ہے کہ اس میں عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات تک کا بھی بیان ہے۔ نیز یہ بھی معلوم
ہوا کہ حقوق ُالعباد نہایت اہم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ان کا بیان فرمایا
۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں بے پناہ حکمتیں ہیں او ر ان میں ہماری
بہت زیادہ بھلائی ہے، چنانچہ اس آیت میں جتنا غور کریں اتنا ہی واضح ہوگا کہ کہاں
کہاں اورکس کس طرح ہمیں اس حکم سے فائدہ ہوسکتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ لکھنا اور حساب کتاب کا علم سیکھنا بہت مفید ہے لہٰذا اگر
کوئی حسنِ نیت سے اکاؤنٹنگ کا علم سیکھتا ہے تو مستحقِ اجر ہے جبکہ سود
وغیرہ کا حساب کتاب رکھنے سے احتراز کرے۔
{وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ: اور گواہی نہ چھپاؤ۔} گواہی
سے متعلق چند احکام اوپر بیان ہوئے۔ یہاں صراحت سے بیان فرمایا کہ گواہی نہ
چھپاؤ کیونکہ گواہی کو چھپانا حرام اور دل کے گناہگار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس
میں صاحبِ حق کے حق کو ضائع کرنا پایا جاتاہے۔ گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے چنانچہ
حضرت عبداللہ
بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں
سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی
گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب
الایمان، الثامن من شعب الایمان، ۱ / ۲۷۱،
الحدیث: ۲۹۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔