Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 284 ≫ Translation ≫ Tafsir
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ-فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(284)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: اور جو کچھ تمہارے دل میں ہے اگر تم اسے ظاہر کرو۔} انسان کے دل میں دو طرح کے خیالات آتے ہیں ایک بطور وسوسہ کے اور ایک بطورِ عزم و ارادہ کے۔ وسوسوں سے دِل کو خالی کرنا انسان کی قدرت میں نہیں لیکن آدمی انہیں برا سمجھتا ہے اور ان پر عمل کرنے کا ارادہ نہیں کرتا، ان کو حدیث ِنفس اور وسوسہ کہتے ہیں ، اس پر مؤاخذہ نہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: کہ میری امت کے دلوں میں جو وسوسے آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے تَجاوُز فرماتا ہے جب تک کہ وہ انہیں عمل میں نہ لائیں یا انہیں اپنے کلام میں نہ لائیں۔(بخاری، کتاب العتق، باب الخطأوالنسیان فی العتاقۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۵۳، الحدیث: ۲۵۲۸)
یہ وسوسے اس آیت میں داخل نہیں۔ دوسرے وہ خیالات جن کو انسان اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور ان کو عمل میں لانے کا قصد و ارادہ کرتا ہے ان پر مؤاخذہ ہو گا اور انہی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اپنے دلوں میں موجود چیز کو تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ تمہارا ان پر محاسبہ فرمائے گا۔
حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو برا خیال دل میں بے اختیار اور اچانک آجاتا ہے،اسے ہاجِس کہتے ہیں ،یہ آنی فانی ہوتا ہے ، آیا اور گیا۔یہ پچھلی امتوں پر بھی معاف تھا اور ہمیں بھی معاف ہے لیکن جو دل میں باقی رہ جائے وہ ہم پر معاف ہے پچھلی امتوں پر معاف نہ تھا۔اگر اس(برے خیال) کے ساتھ دل میں لذت اور خوشی پیدا ہو تو اسے’’ہَمّ‘‘کہتے ہیں ،اس پر بھی پکڑ نہیں اور اگر ساتھ ہی کر گزرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو تو وہ عَزم ہے، اس کی پکڑ ہے۔ (اشعۃ اللمعات، کتاب الایمان، باب الوسوسۃ، الفصل الاول، ۱ / ۸۵-۸۶)
یاد رہے کہ کفرکا عزم کرنا کُفر ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۲۹۳)
لہٰذا اگر کسی نے سو سال بعد بھی کفر کرنے کا ارادہ کیا وہ ارادہ کرتے ہی کافر ہوجائے گا۔ اور گناہ میں حکم یہ ہے کہ گناہ کا عزم کرکے اگر آدمی اس پر ثابت رہے اور اس کا قصد وارادہ رکھے لیکن اس گناہ کو عمل میں لانے کے اسباب اس کومُیَسَّر نہ آسکیں اور مجبوراً وہ اس کو نہ کر سکے تواکثر علماء کے نزدیک اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا۔ امام ابو منصور ماتُریدِی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہی موقف ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ آیت ہے، :
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ‘‘(نور: ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
نیزاس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں فرمایا گیا کہ بندہ جس گناہ کا قصد کرتا ہے اگر وہ عمل میں نہ آئے جب بھی اس پر عقاب کیا جاتا ہے۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۴، ۲ / ۱۳۱)
ہاں اگر بندے نے کسی گناہ کا ارادہ کیا پھر اس پر نادم ہوا اور استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے گا۔
یاد رہے کہ انسان کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور بعض اوقات یہ وسوسے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنا دین و ایمان بچانا مشکل ہوجاتا ہے جیسے شیطان کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ،کبھی تقدیر کے بارے میں ،کبھی ایمانیات کے بارے میں ،کبھی عبادات کے بارے میں ،کبھی طہارت و پاکیزگی کے معاملات کے بارے میں اور کبھی طلاق کے بارے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شیطان فارغ ہے اور تم مشغول ومصروف ہو ۔ شیطان تمہیں دیکھتا ہے مگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ تم شیطان کو بھولے بیٹھے ہو مگر وہ تمہیں برائی میں مبتلاء کرنے سے نہیں بھولا ۔تمہارا نفس خود تمہارا دشمن و مخالف ہے اور شیطان کا مددگار ہے، اس لئے شیطان اور اس کے حامیوں سے جنگ کرنا اور انہیں مغلوب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اس کے فتنہ و فساد اور ا س کی ہلاکت و بربادی سے بچنا بہت مشکل ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالثۃ، ص۵۵)
سَرورِ دیں لیجئے اپنے ناتوانوں کی خبر
نفس و شیطاں سیّدا کب تک دباتے جائیں گے