Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 35 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(35)فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(36)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ:اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو۔} یہاں سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کے واقعے کا خلاصہ:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا توانہوں نے بھی کھالیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا ۔یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔ اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام ایک عرصے تک اپنی لغزش کی معافی مانگتے رہے حتیّٰ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے چند کلمات سکھائے گئے،پھر جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کلمات کے ساتھ توبہ و معافی کی درخواست کی تو وہ قبول ہوئی۔
ایک اہم مسئلہ:
یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ آج کل بیباکی کا دور ہے اور جس کا جو جی چاہتا ہے بول دیتا ہے یہاں تک کہ مذہبی معاملات میں اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں ، اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلے میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غیرِتِلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علماءے کرام نے اسے کفر بتایا (ہے)۔ (فتاوی رضویہ، ۱ / ۸۲۳)لہٰذااپنے ایمان اور قبرو آخرت پر ترس کھاتے ہوئے اِن معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھیں۔
{وَ لَا تَقْرَبَا: اور قریب نہ جانا۔} آیت میں اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی ہے لیکن اس کیلئے فرمایا کہ قریب نہ جانا۔ اس طرزِ خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہیے جیسے بچے کے سیڑھیوں سے گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے صرف سیڑھیوں پر کھڑا ہونے سے منع نہیں کرتے بلکہ سیڑھیوں کے قریب بھی نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح بیسیوں کاموں میں علماء کرام اسی اندیشے سے منع فرماتے ہیں کہ کوئی فعل بذاتِ خود منع نہیں ہوتا لیکن اگر لوگ اس کے قریب جائیں گے تو ممنوع کا ارتکاب کربیٹھیں گے جیسے عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کرنے میں یہی حکمت ہے۔ اسی سے پیر اور مشائخ کے فعل کا استدلال ہوسکتا ہے کہ وہ مریدوں کی تربیت کیلئے بعض اوقات کسی جائز کام سے بھی روک دیتے ہیں کیونکہ وہ جائز کام کسی برائی تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
{فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:ورنہ تم زیادتی کرنے والوں سے ہوجاؤ گے۔}’’ظلم ‘‘کا معنیٰ ہے’’ کسی شے کواس کی اپنی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ رکھنا‘‘ اور یہاں آیت میں ظلم خلافِ اَولیٰ کے معنی میں ہے۔
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو ظالم کہنے والے کا حکم :
یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہنا گستاخی اورتوہین ہے اورجو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہے وہ کافر ہے ۔ اللہ تعالیٰ مالک اور مولیٰ ہے، وہ اپنے مقبول بندوں کے بارے میں جو چاہے فرمائے ،کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے متعلق کوئی خلافِ ادب کلمہ زبان پر لائے اور اللہ تعالیٰ کے اس طرح کے خطابات کو اپنی جرأت و بیباکی کی دلیل بنائے۔اس بات کویوں سمجھیں کہ بادشاہ کے ماں باپ بادشاہ کو ڈانٹیں اور یہ دیکھ کر شاہی محل کا جمعدار بھی بادشاہ کو انہی الفاظ میں ڈانٹنے لگے تو اس احمق کا کیا انجام ہوگا؟ ہمیں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور محبوبانِ خدا کی تعظیم و توقیر اور ادب و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہم پر یہی لازم ہے۔
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کی عصمت کا بیان:
یہ بھی یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہوتے ہیں اوران سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا،ان کے معصوم ہونے پربیسیوں دلائل ہیں۔ یہاں پر صرف 3 دلائل درج کئے جاتے ہیں۔
(1)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے اور مخلص بندے ہیں ،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا:
اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ(ص: ۴۶)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔
اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(یوسف: ۲۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے ۔
اور جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا، جیسا کہ اس کا یہ اعتراف خود قرآن مجید میں موجود ہے:
’’ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(ص: ۸۲-۸۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:اس نے کہا: تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر شیطان کا داؤ نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔
(2)…گناہ کرنے والا مذمت کئے جانے کے لائق ہے ،جبکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ارشاد فرما دیاکہ
’’وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘(ص: ۴۷)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔
(3)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر نہ ہوکیونکہ اگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔