banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 40 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ-وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(40)

ترجمہ: کنزالایمان اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے یعقوب کی اولاد! یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میراعہد پورا کرو میں تمہاراعہد پورا کروں گا اورصرف مجھ سے ڈرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل۔} ’’اسراء‘‘ کا معنیٰ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ اور ’’اِیل ‘‘سے مراد ’’اللہ‘‘ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا ’’عبداللہ‘‘یعنی اللہ کا بندہ ۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸)

عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ:

             یہاں آیت نمبر 40سے لے کرآیت نمبر150تک کی اکثر آیات میں بنی اسرائیل کے عروج وزوال، عزت و ذلت، اِقبال و اِدبار، جزا و سزااورقومی و اجتماعی اچھے برے کردار کا تذکرہ ہے۔ پھر اسی بیان کو قرآن پاک میں باربار دہرایا گیا ہے۔ اس باربار کے تکرار میں ایک بڑی حکمت قوموں کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ سمجھانااور مسلمانوں کو اس سے عبرت دلانا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد ہونے، جلیل القدر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی امت ہونے اور تورات جیسی کتاب رکھنے کے باوجود اپنے اعتقادوعمل کے بگاڑ پر ذلیل و رسوا اور مغلوب و مقہور ہوئی جبکہ توبہ و رجوع اور نبی و کتاب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی صورت میں معزز و غالب ہوئی اسی طرح امت ِ مسلمہ بھی اپنے عروج و زوال کے اسباب کو اِسی آئینے میں دیکھ سکتی ہے۔ آج سب پوچھتے ہیں کہ مسلمان مغلوبیت، ذلت اور پستی کا شکار کیوں ہیں ؟ قرآن میں بیان کردہ بنی اسرائیل کا قومی اور اجتماعی کردار اور موجودہ دور کے مسلمانوں کا قومی اور اجتماعی کردار سامنے رکھ کر موازنہ کرلیں۔ خود ہی سمجھ آجائے گا کہ اگر بنی اسرائیل کو کانٹے بونے پر کانٹے ملتے تھے تو ہمیں کانٹے بونے کے بدلے آم کیوں ملیں گے؟

{ اُذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ : میرا احسان یاد کرو۔}اس آیت میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودیوں کو مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا : اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تمہارے آباؤ اجداد پر کئے جیسے انہیں فرعون سے نجات دی، ان کیلئے دریا میں گزرگاہ بنادی، بادل کو ان پرسائبان بنادیا، کھانے کیلئے ان پر مَن و سَلْویٰ اتارا،ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے،انہیں طاقتور قوموں پر فتح عطا فرمائی اور توریت جیسی عظیم کتاب انہیں عطا فرمائی اور میرا وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیا کہ تمہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زمانہ عطا کیا جن کی آمد کی بشارت تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔(جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الایۃ:۴۰،۱ / ۵۶-۵۷، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸، ملتقطاً)

خیال رہے کہ یہاں یاد کرنے سے مرادصرف زبان سے تذکرہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے ان نعمتوں کا شکر بجالائیں کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا اس کو بھلادینے کے مترادف ہے۔

{ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ:اور میرا عہد پورا کرو۔} یعنی اے بنی اسرائیل!تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاکر وہ عہد پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا اور میں اس کے ثواب کے طور پر تمہیں جنت میں داخل کر کے تمہارے ساتھ کیا ہوا عہد پور اکروں گا اور اپنے عہد کو پورا کرنے کے معاملے میں کسی اور سے ڈرنے کی بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘

اس آیت میں جس عہد کاذکر ہے ا س کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جوسورہ مائدہ میں یوں مذکور ہے:

’’وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ-وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ-وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘‘(مائدہ، آیت: ۱۲)

ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیااور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تم سے تمہارے گناہ مٹا دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس (عہد) کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱ / ۴۸،ملتقطاً)