banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 41 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘-وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(41)

ترجمہ: کنزالایمان اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ایمان لاؤ اس (کتاب )پر جو میں نے اتاری ہے وہ تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ وصول کرواور مجھ ہی سے ڈرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ:اور اس پرایمان لاؤ جسے میں نے نازل کیا ۔} یعنی اے بنی اسرائیل کے علماء! اس  قرآن پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے اور وہ تمہارے پاس موجود کتاب تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور تم اہل کتاب میں سے قرآن مجید اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سب سے اَوّلین منکر نہ بنو ورنہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگ کر کفر اختیار کریں گے تو ان کا وبال بھی تم پر ہوگا۔

نیکی اور برائی کی ابتداء کرنے والے کے بارے میں ایک اصول:

            یاد رہے کہ نیکی اور بدی کے ہرکام میں یہی اصول نافذ ہے کہ اس کی ابتداء کرنے والوں کو پیروی کرنے والوں کے عمل کا ثواب یا عذاب بھی ملے گا۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو ا س کے لئے ا س طریقے کو ایجاد کرنے کا ثواب ہو گا اور ا س کے بعد جو لوگ اُ س طریقے پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی اس( ایجاد کرنے والے)کو ملے گا اور ان (عمل کرنے والوں ) کے اپنے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے اسلام میں برا طریقہ ایجاد کیا تو اُس پر اِس کا گناہ ہو گا اور اِس کے بعد جو لوگ اُس پر عمل کریں گے اُن کا گناہ بھی اِسے ہو گا اور اِن(عمل کرنے والوں ) کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۰۱۷))

{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کرو۔} اس آیت میں دنیاکے حقیر و ذلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیات بیچنے سے منع کیا گیا ہے اوریہاں اُن آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و علامات کا بیان ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات ان یہودیوں کے متعلق نازل ہوئیں جنہیں اپنی قوم سے نذرانے اور وظائف ملتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اگر قوم کو معلوم ہوگیا کہ تورات میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں تو وہ ان سرداروں کو چھوڑکر محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے اور یوں ان کے نذرانے بند ہوجائیں گے۔ اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کے قلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیتیں بیچتے ہیں۔

عظمت ِمصطفٰی   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چھپانے والے غور کریں:

            اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء اپنے باطل مفادات، نفسانی خواہشات اور جاہلانہ تَوَہُّمات کی بنا پر اپنی کتابوں میں موجود ان آیات کو چھپاتے تھے جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کئے گئے اور اگر کبھی کوئی آیت بیان بھی کی تو اس کے ساتھ بعض باطل باتیں ملا کر بیان کرتے تھے حالانکہ علماء کا منصب توحق بات کا اعلان کرنا، حق اور باطل کو جدا کرنا، مالی و ذاتی مفادات کو دین پر قربان کرنااور دین کا محافظ بننا ہے۔ یہودیوں کے بیان کردہ طرزِ عمل اور علماء کے منصب کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی حالت پر غور کرنے کی حاجت ہے جن کا حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان بیان کرنے کے معاملے میں سلسلہ کہیں اور ہی جاکر ملتا ہے ۔