banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 57 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نے اَبر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پرمَنْ اورسَلْویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کا بگاڑ کرتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارے او پر من اور سلویٰ اتارا (کہ)ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ:اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا ۔} فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حکمِ الہٰی سنایا کہ ملک ِشام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کا مدفن ہے اوراسی میں بیت المقدس ہے، اُسے عمالِقہ قبیلے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔ مصر کا چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ شروع میں تو انہوں نے ٹال مٹول کی لیکن جب مجبور ہوکر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت میں روانہ ہونا ہی پڑا توراستے میں جو کوئی سختی اور دشواری پیش آتی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شکایتیں کرتے۔ جب اُس صحرا میں پہنچے جہاں نہ سبزہ تھا، نہ سایہ اور نہ غلہ ،تو وہاں پہنچ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دھوپ کی، گرمی اور بھوک کی شکایت کرنے لگے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اُس دعا کی برکت سے ایک سفید بادل کو ان پر سائبان بنادیا جو رات دن ان کے ساتھ چلتا اوران پر ایک نوری ستون نازل فرمایا جو کہ آسمان کی جانب سے ان کے قریب ہو گیا اور ان کے ساتھ چلتا اورجب رات کے وقت چاند کی روشنی نہ ہوتی تووہ ان کے لئے چاند کی طرح روشن ہوتا۔ ان کے کپڑے میلے اور پرانے نہ ہوتے، ناخن اور بال نہ بڑھتے۔(تفسیر جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۸۱، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۱-۱۴۲)

{وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى   :اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔} اُس صحرا میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے ان کے کھانے کا انتظام یوں ہوا کہ انہیں مَن و سَلْویٰ ملنا شروع ہوگیا۔من و سلویٰ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں : ’’من‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ترنجبین کی طرح ایک میٹھی چیز تھی جو روزانہ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہر شخص کے لیے ایک صاع(یعنی تقریباً چار کلو) کی بقدر اترتی اور لوگ اس کو چادروں میں لے کر دن بھر کھاتے رہتے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ’’من ‘‘ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو اللہ  تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کسی مشقت اور کاشتکاری کے بغیر عطا کر کے ان پر احسان فرمایا۔’’سلویٰ‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا پرندہ تھا، اور اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ پرندہ بھنا ہو ابنی اسرائیل کے پاس آتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ جنوبی ہوا اس پرندے کو لاتی اور بنی اسرائیل اس کا شکار کر کے کھاتے۔ یہ دونوں چیزیں ہفتے کوبالکل نہ آتیں ،باقی ہر روز پہنچتیں ، جمعہ کودگنی آتیں اور حکم یہ تھا کہ جمعہ کو ہفتے کے لیے بھی جمع کرلو مگر ایک دن سے زیادہ کا جمع نہ کرو۔ بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی ناشکری کی اورذخیرے جمع کیے، وہ سڑ گئے اور ان کی آمد بند کردی گئی۔ یہ انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا کہ دنیا میں نعمت سے محروم ہوئے اور آخرت میں سزاکے مستحق ہوئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷،۱ / ۵۶، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۲)