banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 58 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(58)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ہم نے انہیں کہا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہونااور کہتے رہنا، ہمارے گناہ معاف ہوں ، ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور عنقریب ہم نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ:اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ۔ }اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یااَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ،وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کے لیے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّةٌ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا۔) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا: بال میں دانہ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔(تفسیرخازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸،۱ / ۵۶، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۵۳، تفسیر عزیزی (مترجم)،۱ / ۴۵۶-۴۵۷، ملتقطاً)