Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 85 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ٘-تَظٰهَرُوْنَ عَلَیْهِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِؕ-وَ اِنْ یَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْهُمْ وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ اِخْرَاجُهُمْؕ-اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(85)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ٘-فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(86)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ:پھر یہ جو تم ہو۔}اس آیت میں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود یہودیوں کے عجیب و غریب طرزِ عمل کا بیان ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ تورات میں بنی اسرائیل کو تین حکم دیئے گئے تھے: (۱)ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ (۲)ایک دوسرے کو جلا وطن نہ کرنا۔ (۳)اگر وہ اپنی قوم کے کسی مرد یا عورت کو اس حال میں پائیں کہ اسے غلام یا لونڈی بنا لیا گیا ہے تو ا سے خرید کر آزاد کر دیں۔ نسل در نسل یہ عہد چلتا رہا یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے گردو نواح میں آباد یہودیوں کے دو قبائل بنی قُرَیْظَہ اور بنی نَضِیْر میں منتقل ہوا، اس وقت مدینہ شریف میں مشرکوں کے دو قبیلے اَوْس اور خَزْرَج ْرہتے تھے، بنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کے حلیف تھے اور بنی نَضِیْر خزرج قبیلے کے حلیف تھے اور ہر ایک قبیلہ نے اپنے حلیف کے ساتھ قسم اٹھارکھی تھی کہ اگر ہم میں سے کسی پر کوئی حملہ آور ہو تو دوسرا اس کی مدد کرے گا۔جب اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوتی تو بنی قُرَیْظَہ اوس کی اوربنی نَضِیْر خزرج کی مدد کے لیے آتے تھے اور اپنے حلیف کے ساتھ ہو کر آپس میں ایک دوسرے پر تلوار چلاتے اور بنی قُرَیْظَہ بنی نَضِیْر کو اور وہ بنی قُرَیْظَہ کو قتل کرتے، ان کے گھر ویران کردیتے اور انہیں ان کی رہائش گاہوں سے نکال دیتے تھے، لیکن جب ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے حلیف قید کرلیتے تو وہ ان کو مال دے کر چھڑالیتے تھے، مثلا ً اگر بنی نَضِیْر کا کوئی شخص اوس قبیلے کے ہاتھ میں گرفتار ہوتا توبنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کو مالی معاوضہ دے کر اس کو چھڑا لیتے حالانکہ اگر وہی شخص لڑائی کے وقت ان کے ہاتھ آجاتا تو اسے قتل کرنے میں ہر گز دریغ نہ کرتے تھے۔لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بھی عجیب لوگ ہو کہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو اور فدیہ دے کر چھڑا بھی لیتے ہو۔یہودیوں نے کہا : ہمیں تورات میں یہ حکم دیاگیاہے کہ ہم اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑ الیں ، اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر تم ایک دوسرے کو قتل کیوں کرتےہو حالانکہ تورات میں تمہیں اس چیز سے بھی تو منع کیاگیا ہے۔ یہودیوں نے کہا : جنگ کے دوران ایک دوسرے کو قتل کرنے سے اگرچہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا عہد ٹوٹ جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ ہمارے حلیف ذلیل ہوں کیونکہ اگر ہم نے ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن نہ کیا تو اس میں ہمارے حلیفوں کی ذلت ہے اور چونکہ فدیہ دے کر چھڑا لینے میں ان کی ذلت نہیں ہے اس لئے ہم اس عہد کو پورا کر دیتے ہیں۔ یہودیوں کی اس حرکت پر انہیں اس آیت میں ملامت کی جارہی ہے کہ جب تم نے اپنوں کی خونریزی نہ کرنے، ان کو بستیوں سے نہ نکالنے اور ان کے اسیروں کو چھڑانے کا عہد کیا تھا تویہ کیا دو رنگی ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل اور جلاوطن کرنے میں تو ہرگز دریغ نہیں کرتے اور جب کوئی گرفتار ہوجائے تو اسے فدیہ دے کر چھڑالیتے ہو اورجن باتوں کا تم نے عہد کیا تھا ان میں سے کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا کیامعنی رکھتا ہے ! جب تم ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن کرنے سے باز نہ رہے تو تم نے عہد شکنی کی اور حرام کے مرتکب ہوئے۔
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ: کیا کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو۔} بنی اسرائیل کا عملی ایمان ناقص تھا کہ کچھ حصے پر عمل کرتے تھے اور کچھ پر نہیں اور اس پر فرمایا گیا کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہواور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شریعت کے تمام احکام پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تمام ضروری احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔کوئی شخص کسی وقت بھی شریعت کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا اورخود کو طریقت کا نام لے کر یا کسی بھی طریقے سے شریعت سے آزاد کہنے والے کافر ہیں۔ اس کی تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’مَقَالُ الْعُرَفَاءُ بِاِعْزَازِ شَرْعٍ وَعلماء(علماء اور شریعت کی عظمت پر اہل ِمعرفت کا کلام)‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔یاد رہے کہ عظمت ِ توحیدکو ماننا لیکن عظمت ِ رسالت سے انکار کرنا بھی اسی زُمرے میں آتا ہے کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو۔
{خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا: دنیا کی زندگی میں رسوائی۔} بنی اسرائیل کی دنیا میں تو یہ رسوائی ہوئی کہ بنی قُرَیظَہ 3 ہجری میں مارے گئے اور بنی نَضِیر اس سے پہلے ہی جلا وطن کردیئے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرفداری میں دین کی مخالفت کرنا اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوتاہے۔ دنیا کے بڑے بڑے معاملات کو اِس آیت کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی گناہوں کی شامت سے دنیاوی آفات بھی آجاتی ہیں۔
{وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ: اور اللہ غافل نہیں۔}اس طرح کی آیات جن میں یہ مفہوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ان میں نافرمانوں کے لئے شدید وعیدہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے افعال سے بے خبر نہیں ہے ،تمہاری نافر مانیوں پر شدیدعذاب دے گا۔ یونہی ایسی آیات میں مؤمنین و صالحین کے لئے خوشخبری ہوتی ہے کہ انہیں اعمال حسنہ کی بہترین جزاء ملے گی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۵۹۴، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۱۷۵-۱۷۶، ملتقطاً)