banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 93 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْاؕ-قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَاۗ-وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْؕ-قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(93)

ترجمہ: کنزالایمان اور یاد کرو جب ہم نے تم سے پیمان لیا او ر کوہِ طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا، لو جو ہم تمہیں دیتے ہیں زور سے اور سنو بولے ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے کفر کے سبب تم فرمادو کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور (یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیا او ر کوہِ طور کو تمہارے سروں پر بلند کردیا(اور فرمایا)مضبوطی سے تھام لو اس کو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور سنو۔ انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں توبچھڑا رچا ہوا تھا۔ اے محبوب! تم فرمادو: اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ: اور جب ہم نے تم سے عہد لیا۔ }یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا لیکن انہوں نے حسب ِ عادت نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کوہِ طور کو ہوا میں بلند کردیا اور ان سے فرمایا کہ چلو اب مضبوطی سے اس تورات کو تھام لو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ہمارے احکام دھیان سے سنو ۔بنی اسرائیل نے ڈر کے مارے دوبارہ اطاعت کا اقرار توکرلیا لیکن ان کے دل کی حالت پہلے جیسی ہی رہی اور شریعت کا حکم چونکہ ظاہر پر ہوتاہے دل پر نہیں ، اس لئے بنی اسرائیل کے زبانی اقرار کرنے پر ان سے کوہِ طورکو ہٹا لیا گیا اگرچہ ان کے دل میں وہی انکار تھا اور درحقیقت ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں توبچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرمائیں کہ اے یہودیو!تم اپنے اسلاف کی اس حرکت کو جانتے ہو لیکن تم نہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہو اورنہ ہی اس سے اپنی براء ت ظاہر کرتے ہو تو خود بتاؤ کہ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہ تقاضے ہیں ؟اگر اس کے یہی تقاضے ہیں تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔

قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا مطلب:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ  تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ ا س کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کاجو دعویٰ کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں۔ ذرا غور کریں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے،رمضان کے روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت نمازوں سے دور ہے، فرض روزے نہ رکھنے کے مختلف حیلے بہانے تراش رہی ہے اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ان پر بہت بھاری ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو باطل اور ناجائز طریقے سے کسی مسلمان کا مال کھانے سے منع کیا گیا، لیکن آج مال بٹورنے کا کونسا ایسا ناجائز طریقہ ہے جو مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح رائج نہیں۔ قرآن حکیم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع کیا لیکن آج مسلمانوں میں ناحق قتل و غارت گری ایسی عام ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ میں نے کیوں مارا۔ قرآن شریف میں مسلمان عورتوں کو گھروں میں رہنے اور پردہ کرنے کا حکم دیاگیا لیکن آج ہمارے معاشرے کا وہ کونسا طبقہ ہے جس میں مسلمان عورت سج سنور کر اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آرہی بلکہ آج مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ عورت کے پردہ کرنے کو دقیانوسی سوچ اور تنگ ذہنی قرار دے رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنے زبانی ایمان و محبت کے دعووں اور بے عملی و بدعملی کے درمیان کا تضاد اور فرق سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں اور ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا نصیب ہو جائے کہ ہمارے جیسے اعمال ہیں کیا ہمارا ایمان ہمیں ان اعمال کا حکم دیتا ہے یا ہمارے ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں ؟

ایمانی قوت معلوم کرنے کا طریقہ:

          اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک دل میں برائی کی لذت و حلاوت موجود رہتی ہے تب تک ایمان اور نیک اعمال کی شیرینی اس میں داخل نہیں ہوسکتی اور گناہوں پر اصرار ایمان کی مٹھاس اور عبادت کی لذت محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یاد رہے کہ نیکوں اورنیکیوں سے محبت ایمان کی علامت ہے جبکہ بروں اور برائیوں سے محبت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ایمانی قوت کو اپنے قلبی میلان سے معلوم کرے کیونکہ جن دلوں میں فلموں ، ڈراموں ، بے حیائیوں اور گانوں کی محبت ہو ان دلوں میں نماز، ذکر، درود اور تلاوت کی محبت نہیں سما سکتی۔