Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 94 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(94)
تفسیر: صراط الجنان
{ خَالِصَةً: خالص تمہارے لئے ۔} یہودیوں کا ایک باطل دعویٰ یہ تھا کہ جنت میں صرف وہی جائیں گے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت 111میں یہ دعویٰ مذکور ہے۔ اس کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے گمان میں جنت تمہارے لیے خاص ہے اور آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے، اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو، موت کی تمنا کرو تاکہ عیش و آرام والی جنت میں پہنچ جاؤ اور اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو یہ تمہارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، ۱ / ۴۷۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔ (تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۶۰)
{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ: تو موت کی تمنا کرو۔} موت کی محبت اوراللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ( ہر نماز کے بعد) دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے وفات نصیب فرما۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)
عمومی طور پر تمام اکابرصحابہ او ربالخصوص شہدائے بدر واحد واصحابِ بیعت رضوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم راہِ خدا میں موت سے محبت رکھتے تھے، حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایران والوں کوجو خط بھیجا اس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْقَتْلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَا یُحِبُّ الْفَارَسُ الْخَمْرَ‘‘ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جانے کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا ایرانی لوگ شراب سے محبت رکھتے ہیں۔(معجم الکبیر، باب من اسمہ خالد، ۴ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۸۰۶)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس طرح کا خط حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایرانی لشکر کےسپہ سالار رستم بن فرخ زاد کے پاس بھیجا تھا اوراس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْمَوْتَ کَمَا یُحِبُّ الَْفارَسُ الْخَمْرَ‘‘ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو موت کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا عجمی شراب کو مرغوب رکھتے ہیں۔ (تفسیر عزیزی (مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۰۳)
اس میں لطیف اشارہ تھا کہ شراب کی ناقص مستی کو محبتِ دنیا کے دیوانے پسند کرتے ہیں اور اللہ والے موت کو محبوب حقیقی کے وصال کا ذریعہ سمجھ کر محبوب جانتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اہلِ ایمان آخرت کی رغبت رکھتے ہیں اور اگرلمبی عمر کی تمنا بھی کریں تو وہ اس لیے ہوتی ہے کہ نیکیاں کرنے کے لیے کچھ اور عرصہ مل جائے جس سے آخرت کے لیے ذخیرۂ سعادت زیادہ کرسکیں اوراگر گزشتہ زندگی میں گناہ ہوئے ہیں تو ان سے توبہ و استغفار کرلیں البتہ دنیوی مصائب سے تنگ آکر وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کوئی دنیوی مصیبت سے پریشان ہو کر موت کی تمنا نہ کرے اور اگر موت کی تمنا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، جب تک زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے وفات بہتر ہو اس وقت مجھے وفات دیدے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)اور درحقیقت دنیوی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی دعا کرنا صبر و رضاو تسلیم و توکل کے خلاف ہے اورناجائز ہے۔