Home ≫ ur ≫ Surah Al Fajr ≫ ayat 19 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا(19)وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاﭤ(20)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو۔} یہاں کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو، جاہلیَّت میں یہی دستور تھا۔
اس بیان کردہ ظلم میں بہت سی صورتیں داخل ہیں اور فی زمانہ جو چچا تایا قسم کے لوگ یتیم بھتیجوں کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں یا روٹین میں جو بہنوں ، بیٹیوں یا پوتیوں کو وراثت نہیں دی جاتی وہ بھی اسی میں داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔
{وَ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا: اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔} یہاں کفار کی ذلت اور چوتھی خصلت بیان کی گئی ہے اور یہ حقیقت میں بقیہ جملہ اَمراض کی جڑ اور بنیاد ہے اور وہ ہے مال اور دنیا کی محبت۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو کہ اس کو خرچ کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی سبب سے یتیموں کی عزت نہیں کرتے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے، دوسروں کو صدقہ و خیرات کی ترغیب نہیں دیتے بلکہ دوسروں کا مال کھاجاتے ہو، ان کی زمین، جائیداد، مال، وراثت اور ملکیت پر قبضے کرتے ہو بلکہ اسی سبب سے قتل و غارَتگَری کرتے ہو ۔ الغرض فساد کی جڑ یعنی مال کی محبت کی وجہ سے ہر طرح کا بگاڑ پیدا کرتے ہو۔
مال کی محبت انتہائی تباہ ُکن ہے:
مال کی محبت نہایت تباہ کن ہے، اسی لئے قرآن و حدیث میں اس کی بکثرت مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ‘‘(ال عمران:۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو (ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللّٰہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ‘‘(ہود:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ‘‘(شوریٰ:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتاہے توہم اسے اس میں سے کچھ دیدیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷) ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘‘(تکاثر:۱۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نےتمہیں غافل کردیا ۔یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے(تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔ بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔
اوراُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر ابن ِآدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو (اس کے باوجود) وہ یہ پسند کرے گا کہ ا س کے پاس تیسری سونے کی وادی (بھی) ہو،ابن ِآدم کا پیٹ مٹی ہی بھر سکتی ہےاور جو توبہ کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔( مسند ابو یعلی، مسند عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۴ / ۸۲، الحدیث: ۴۴۴۳)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر آدمی کے پاس اتنا مال ہو جس سے میدا ن بھر جائے تو وہ ضرور چاہے گا کہ اُس کے پاس اور مال ہو اورا ٓدمی کی آنکھ کو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب ما یتّقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۶۴۳۷)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دینار و درہم کے بندے نیز ریشمی چادروں اور اونی کپڑوں کے بندے ہلاک ہوئے کیونکہ اگر یہ چیزیں انہیں دے دی جائیں تو وہ راضی ہو گئے اور اگر نہ دی جائیں تو وہ راضی نہیں ہوتے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب ما یتّقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۶۴۳۵)
البتہ یہاں یہ یاد رہے کہ آیت میں فرمایا گیا کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو ۔اس سے معلوم ہوا کہ مال کی محبت مُطلَقاً بری نہیں بلکہ بہت گہری محبت بری ہے۔ گہر ی محبت کی کئی صورتیں ہیں : جہاں خرچ کرنا ضروری ہے وہاں بھی خرچ نہ کرے،حلال و حرام میں تمیز باقی نہ رکھے، سوتے جاگتے مال حاصل کرنے کی فکر میں رہے، مال کی طلب میں آخرت سے بے پرواہ اور اللّٰہ و رسول سے غافل ہو جائے، مال طلبی میں فرائض و واجبات ترک کردے ، وغیرہا۔