banner image

Home ur Surah Al Fajr ayat 4 Translation Tafsir

اَلْفَجْر

Al Fajr

HR Background

وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ(3)وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِ(4)

ترجمہ: کنزالایمان اور جُفت اور طاق کی۔ اور رات کی جب چل دے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جفت اور طاق کی۔ اور رات کی جب وہ چل پڑے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ: اور جفت اور طاق کی۔} جفت اور طاق سے کیا مراد ہے اس بارے میں  مفسرین کے متعدد اَقوال ہیں ،ان میں  سے چار اَقوال درج ذیل ہیں ،

 (1)…جفت سے مراد ذوالحجہ کی10 تاریخ جس دن حج کے اہم اَفعال سرانجام دئیے جاتے ہیں  اور طاق سے مراد 9تاریخ جس دن میدانِ عرفات میں  حج ہوتا ہے۔اس دن کی فضیلت کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی دن بندوں  کو جہنم سے آزاد نہیں  کرتا،اللّٰہ (اپنے بندوں  سے) قریب ہوتا ہے،پھر فرشتوں  کے سامنے اپنے بندوں  پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے یہ بندے کس ارادے سے آئے ہیں ۔( مسلم، کتاب الحج، باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، ص۷۰۳، الحدیث: ۴۳۶(۱۳۴۸))

(2)…جفت سے مراد مخلوق اور طاق سے مراد اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے جیسے حدیثِ مبارک میں  ہے : بیشک اللّٰہ تعالیٰ وِتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔( مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، ص۱۴۳۹، الحدیث: ۵(۲۶۷۷))

(3)…ہر چیز کے جفت اور طاق کی قسم ہے گویا جملہ مخلوقات ِ الٰہی کی قسم ہے۔

(4)…جفت سے مراد 2اور 4رکعت والی نمازیں  اور طاق سے مراد 3رکعت والی نماز یعنی مغرب ہے۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۷۴، مدارک، الفجر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۴۵، ملتقطاً)

{وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِ: اور رات کی جب وہ چل پڑے۔} رات کے چلنے سے مراد ہے کہ گزرنے لگے۔ اس رات سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں  مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس سے خاص مُزدلفہ کی رات مراد ہے جس میں  بندگانِ خدا طاعت ِالٰہی کے لئے جمع ہوتے ہیں بلکہ اس رات اور مقامِ مزدلفہ کی فضیلت میں  قرآن مجیدکی آیت موجود ہے ،چنانچہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے: ’’فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْۚ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ‘‘(بقرہ:۱۹۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مشعر ِحرام کے پاس اللّٰہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کروکیونکہ اس  نے تمہیں  ہدایت دی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم یقینابھٹکے ہوئے تھے۔

             نیز حدیث ِمبارک میں  حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ عرفات سے مُزدلفہ میں  تشریف لائے ،یہاں  مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی ،پھر لیٹے یہاں  تک کہ فجر طلوع ہوئی ،جب صبح ہوئی تو اُس وقت اذان و اِقامت کے ساتھ نمازِ فجر پڑھی ، پھر قَصْواء اونٹنی پر سوار ہو کر مَشْعَرِ حرام میں  آئے اورقبلہ کی جانب منہ کرکے دعا ، تکبیر و تہلیل اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت بیان کرنے میں  مشغول رہے اور وقوف کیا یہاں  تک کہ خوب اُجالا ہو گیا اور طلوعِ آفتاب سے قبل یہاں  سے روانہ ہوئے ۔( مسلم، کتاب الحج، باب حجّۃ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۶۳۴، الحدیث: ۱۴۷(۱۲۱۸))

             بعض علماء کے بقول یہ رات حاجیوں  کیلئے شب ِ قدر سے بھی افضل ہے۔

            آیت میں  مذکور رات کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے شبِ قدر مراد ہے جس میں  رحمت کا نزول ہوتا ہے اور جو ثواب کی کثرت کے لئے مخصوص ہے اور جس کے بارے میں  خود قرآنِ پاک کی پوری سورت موجود ہے۔نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے عام رات یعنی ہر رات مراد ہے کہ رات بذاتِ خود بہت سے عجائبات و اَسرار پر مشتمل ہے۔