banner image

Home ur Surah Al Falaq ayat 1 Translation Tafsir

اَلْفَلَق

Al Falaq

HR Background

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ(1)مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ(2)وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ(3)وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ(4)وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ(5)

ترجمہ: کنزالایمان تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس کی سب مخلوق کے شر سے۔ اور اندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں ۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم فرماؤ: میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔ اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔ اورسخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھاجائے۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں ۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ: تم فرماؤ: میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔}پناہ مانگنےمیں اللّٰہ تعالیٰ کا اس وصف’’ صبح کے رب‘‘ کے ساتھ ذکر اس لئے ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ صبح پیدا کرکے رات کی تاریکی دور فرماتا ہے تو وہ ا س پر بھی قادر ہے کہ پناہ چاہنے والے سے وہ حالات دور فرما دے جن سے اسے خوف ہو، نیز جس طرح تاریک رات میں آدمی صبح طلوع ہونے کا انتظار کرتا ہے اسی طرح خوف زدہ آدمی امن اور راحت کا منتظر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ صبح مجبور ولاچار لوگوں کی دعاؤں کا اور ان کے قبول ہونے کا وقت ہے تواس آیت سے مراد یہ ہوئی کہ جس وقت کَرب اور غم والوں کو آسانیاں دی جاتی ہیں اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں،میں اُس وقت کو پیدا کرنے والے کی پناہ چاہتا ہوں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ’’ فَلق‘‘ جہنم میں ایک وادی ہے۔ (خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۹-۴۳۰)

{مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ: اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔} اس آیت میں ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے ،خواہ جاندار ہو یا بے جان، مُکَلّف ہو یا غیر مُکَلّف اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مخلوق سے مراد خاص ابلیس ہے جس سے بدتر مخلوق میں کوئی نہیں۔( خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۳۰)

{وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ: اورسخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھاجائے۔}اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے چاند کی طرف نظر کرکے ان سے فرمایا ، اے عائشہ!  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا ،اس کے شر سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ، یہ جب ڈوب جائے تواندھیراہو جاتاہے ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المعوّذتین، ۵ / ۲۴۰، الحدیث: ۳۳۷۷) اس سے مراد مہینے کی آخری راتیں ہیں جب چاند چھپ جاتا ہے تو جادو کے وہ عمل جو بیمار کرنے کے لئے ہیں اسی وقت میں کئے جاتے ہیں ۔( خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۳۰۔)

{وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ: اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔} یعنی جادوگر عورتوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو ڈوروں میں گرہ لگا لگا کر ان میں جادو کے منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہیں ، جیسا کہ لبید کی لڑکیوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر جادو کرنے کیلئے کیا تھا۔( بغوی، الفلق، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۵۱۷)

تعویذات سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:

یاد رہے کہ ناجائز کاموں کیلئے تعویذ گنڈے ناجائز و حرام ہیں جبکہ جائز مقصد کیلئے گنڈے بنانا اور ان پر گرہ لگانا،قرآن مجید کی آیات یااللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء پڑھ کر دم کرنا، جائز ہے ۔جمہور صحابہ ٔکرام اور تابعین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی پر ہیں۔( خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۹ملتقطاً) اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے عملِ مبارک اور ارشاد سے بھی یہ چیز ثابت ہے ،چنانچہ

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے ،آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مُعَوَّذات(یعنی سورہِ فَلق اور سورہِ ناس) پڑھ کر اس پر دم فرماتے۔( مسلم، کتاب السلام، باب رقیۃ المریض بالمعوّذات والنّفث، ص۱۲۰۵، الحدیث: ۵۰(۲۱۹۲))

اورحضرت عبید بن رفاعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضرت اَسماء بنت ِعمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹوں کو بہت جلد نظر لگ جاتی ہے ،کیا میں کچھ پڑھ کے ان پر دم کر دیاکروں ؟ارشاد فرمایا’’ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جا سکتی تو نظر ضرور اس سے سبقت لے جاتی۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ماجاء فی الرّقیۃ من العین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۶)

{وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ: اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔} حسد والا وہ ہے جو دوسرے کی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے ۔یہاں حاسد سے بطورِ خاص یہودی مراد ہیں جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے حسد کرتے تھے یا خاص لبید بن اعصم یہودی ہے۔ (خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۳۰) اور عمومی طور پر ہر حاسد سے پناہ کیلئے یہ آیت ِمبارکہ کافی ہے۔ حسد بدترین صفت ہے اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا اور زمین میں قابیل سے۔ حسد کے مقابلے میں رَشک ہوتا ہے اور وہ یہ ہے جس میں اپنے لئے بھی اسی نعمت کی تمنا ہوتی ہے جو دوسرے کے پاس ہے لیکن دوسرے سے چھن جانے کی تمنا اس میں نہیں ہوتی۔اس سورتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جادو اور حسد بد ترین جرائم ہیں کہ عام شروں کے بعد ان کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔