banner image

Home ur Surah Al Fath ayat 16 Translation Tafsir

اَلْفَتْح

Al Fath

HR Background

قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَۚ-فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًاۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(16)

ترجمہ: کنزالایمان اُن پیچھے رہ گئے ہوئے گنواروں سے فرماؤ عنقریب تم ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ اُن سے لڑو یا وہ مسلمان ہوجائیں پھر اگر تم فرمان مانو گے اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گاا ور اگر پھرجاؤ گے جیسے پہلے پھر گئے تو تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔ ترجمہ: کنزالعرفان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے فرماؤ: عنقریب تمہیں ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلایا جائے گا تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے پھر اگر تم فرمانبرداری کروگے تو اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گاا ور اگر پھر وگے جیسے تم اس سے پہلے پھر گئے تھے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ: پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں  سے فرماؤ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا کہ وہ حدیبیہ میں  شریک نہ ہونے والے دیہاتیوں  کو جنگِ خیبر میں  اپنے ساتھ آنے سے منع کر دیں  اور ان دیہاتیوں  کا حال یہ تھا کہ ان کا تعلق مختلف قبائل سے تھا اور ان میں  بعض ایسے بھی تھے جن کے تائب ہونے کی امید تھی اور بعض ایسے بھی تھے جو نفاق میں  بہت پختہ اور سخت تھے، اللہ تعالیٰ کو انہیں  آزمائش میں  ڈالنا منظور ہوا تاکہ توبہ کرنے والے اور نہ کرنے والے میں  فرق ہوجائے، اس لئے حکم ہوا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دیہاتیوں  سے فرمادیجئے :عنقریب تمہیں  ایک سخت لڑائی کرنے والی قوم کی طرف بلایا جائے گا تاکہ تم ان سے جنگ کرو یا وہ لوگ مسلمان ہوجائیں  ، پھر اگر تم بلانے والے کی فرمانبرداری کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں  دنیا میں  غنیمت اور آخرت میں  جنت کی صورت میں اچھا اجر دے گاا ور اگر فرمانبرداری کرنے سے پھر وگے جیسے تم اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر پھر گئے تھے تو وہ تمہیں  آخرت میں  درد ناک عذاب دے گا۔

            سخت لڑائی والی قوم سے کون لوگ مراد ہیں  ،ان کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ،ان میں  سے دو قول درج ذیل ہیں :

 (1)… ان سے یمامہ کے رہائشی بنو حنیفہ مراد ہیں  جو کہ مُسیلمہ کذّاب کی قوم کے لوگ ہیں  اور ان سے جنگ کرنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعوت دی۔حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!ہم اس آیت کوپہلے پڑھتے تھے اورہمیں معلوم نہیں  تھاکہ اس جنگجوقوم سے کون سی قوم مراد ہے، حتّٰی کہ حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمیں  بنوحنیفہ کے خلاف جنگ کی دعوت دی، تب ہمیں  پتہ چلاکہ اس جنگجوقوم سے مرادبنوحنیفہ ہیں ۔

(2)… ان سے مراد فارس اور رُوم کے لوگ ہیں  جن سے جنگ کرنے کیلئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعوت دی۔( خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۴۹-۱۵۰، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۴۳-۱۱۴۴، قرطبی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۹۵-۱۹۶، الجزء السادس عشر، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۹ / ۳۰-۳۲، ملتقطاً)

 حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافت صحیح ہونے کی دلیل:

            یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافت صحیح ہونے کی دلیل ہے ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ (اس آیت کے نزول کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں  کسی جہاد کے لئے ان دیہاتیوں  کو دعوت نہیں  دی گئی ،آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد) حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے زمانہ میں  مُرتدوں  اور کافروں  کے خلاف جہاد ہوئے اور ان جہادوں  میں  شرکت کی دعوت دی گئی (اس سے معلوم ہوا کہ جنگجو قوم کے خلاف لڑائی کی دعوت دینے والا برحق امام ہے)۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کی اطاعت پر جنت کا اور ان کی مخالفت پر جہنم کا وعدہ دیا گیا (جس سے معلوم ہوا کہ ان کی اطاعت کرنا اور مخالفت نہ کرنا لازم تھا اور یہ حکم بھی برحق امام کیلئے ہے)۔(خازن، الفتح، تحت الآیۃ:۱۶، ۴ / ۱۴۹، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۴۳، قرطبی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۹۵-۱۹۶، الجزء السادس عشر، ملتقطاً)