Home ≫ ur ≫ Surah Al Fath ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(9)
تفسیر: صراط الجنان
{لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شاہد،مُبَشِّر اور نذیر بنا کر بھیجنے کے گویا 3 مَقاصِد بیان فرمائے ہیں ،پہلا مقصد یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں ،دوسرا مقصد یہ ہے کہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر کریں ،تیسرا مقصد یہ ہے کہ لوگ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کریں ۔ پہلا مقصد تو واضح ہے جبکہ دوسرے مقصد کے بارے میں بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں تعظیم و توقیر کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے یعنی تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور توقیر کرو، البتہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر کرنا ہے۔ تیسرے مقصد کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے مراد اِن اوقات میں ہر نقص و عیب سے اس کی پاکی بیان کرنا ہے، یا صبح کی تسبیح سے مراد نمازِ فجر اور شام کی تسبیح سے باقی چاروں نمازیں مراد ہیں ۔(مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۱۴۱، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۴۶-۱۴۷، ملتقطاً)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کرنے والے کامیاب ہیں:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعدآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
قرآن اور تعظیم ِحبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلا جاتاہے تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی اور نے بنائے ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اوراس کے دربار کے آداب تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ،تما م بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِگرامی ہے ، جن کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور قرآنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ، یہاں اس شہنشاہ کے ادب و تعظیم کے اَحکام پر مشتمل قرآنِ مجید کی 9آیات ملاحظہ ہوں جن میںاللہ تعالیٰ نے متعدد اَحکام دئیے ہیں ،
(1)…حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی بلائیں فورا ًان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘(انفال:۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔
(2)…بارگاہِ رسالت میں کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(مجادلہ:۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تم (اس پر قدرت)نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
بعد میں وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا۔
(3)…ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ پکارو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا‘‘(نور:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔
(4)…حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کی بارگاہ میں زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
(5)…جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ،جیسا کہ لفظِ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(بقرہ:۱۰۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(6)…کسی قول اور فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(حجرات:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
(7)…حُجروں کے باہر سے پکارنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عقل فرمایا اور انہیں تعظیم کی تعلیم دی،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(حجرات:۴، ۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھااور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(8)…رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر میں اجازت کے بغیر نہ جاؤ اور وہاں زیادہ دیر نہ بیٹھو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ-ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّؕ-وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا‘‘(احزاب:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں نہیں کہ خود ہی اس کے پکنے کاانتظار کرتے رہو۔ ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ پھرجب کھانا کھا لوتو چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ باتوں سے دل بہلاتے ہوئے بیٹھے رہو۔ بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہرسے مانگو ۔ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کیلئے یہ زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور تمہارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ رسولُ اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو ۔بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔
ان آیات میں دئیے گئے اَحکام سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں بھی ارشاد فرمائی ہیں ،اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں ہے ،جو لوگ اسے شرک کہتے ہیں ان کا یہ کہنا مردود ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:
شرک ٹھہرے جس میں تعظیمِ حبیب
اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجئے
صحابہ ٔکرام ا ور تعظیم ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس سے اللہ تعالیٰ کے وہ اَحکام سنے جن میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کرنے کا فرمایاگیا ہے،اسی لئے ان عالی شان ہستیوں نے اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور ان کی بابرکت بارگاہ کے اد ب و احترام کی انتہائی شاندار مثالیں رقم کی ہیں اور اگرچہ انہیں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت کا فیض بہت زیادہ حاصل تھا، یونہی یہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی شدید محبت بھی کرتے تھے اس کے باوجود تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے کبھی مُرتکِب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہی کرتے تھے ،جیسے تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بہترین اَلقاب کے ساتھ ، انتہائی عاجزی سے او ر آپ کے مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت کرتے ہوئے خطاب کرتے تھے اور جب کلام کرتے تو اس کی ابتداء میں سلام کے بعد یوں کہتے ’’فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے ماں باپ بھی آپ پر فدا ہوں ،یایوں کہتے ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘میری جان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نثار ہے۔
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو ا تو دیکھا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گرد اس طرح (ساکِن)بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔(شفاء، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل فی عادۃ الصحابۃ فی تعظیمہ... الخ، ص۳۸، الجزء الثانی)
یہ تو ان کی اجتماعی تعظیم کا حال تھا اب اِنفرادی تعظیم پر مشتمل دو واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے حدیبیہ کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو طوافِ کعبہ کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ’’مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہٖ رَسُوْلُ اللہصَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ‘‘میں اس وقت تک طواف نہیں کرسکتا جب تک کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طواف نہیں کرتے۔( شفاء، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل فی عادۃ الصحابۃ فی تعظیمہ... الخ، ص۳۹، الجزء الثانی)
(2)…غَزْوَہِ خیبر سے واپسی میں صہبا کے مقام پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نما زِ عصر پڑھی، اس کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے (کسی وجہ سے ابھی تک) نماز ِعصر نہ پڑھی تھی ،یہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اس خیال سے کہ زانو سَرکا تا ہوں تو کہیں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک نیند میں خَلل نہ آجائے ، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چشم ِمبارک کھلی تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا۔ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی توسورج پلٹ آیا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے نمازِ عصر ادا کی، پھر سورج ڈوب گیا۔(شفاء،القسم الاول،الباب الرابع،فصل فی انشقاق القمر،ص۲۸۴،الجزء الاول،شواہدالنبوہ،رکن سادس،ص۲۲۰)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کی خاطر عبادات میں سے افضل عبادت نماز اور وہ بھی درمیانی نماز یعنی نمازِ عصرقربان کردی ،نیزہجرت کے موقع پر یار ِغار حضرت ابوبکر صدیق ِاکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو جاں نثاری کی مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے اوران واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خَطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فُروضِ غُرَر کی ہے
ہاں تُو نے اُن کو جان اِنھیں پھیر دی نماز
پَر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجْوَر کی ہے
الغرض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شاہکار تعظیم اور بے مثال ادب و احترام کیا کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ ان کے ادب و تعظیم کا صدقہ ہمیں بھی حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
آیت ’’لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے4 مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… تمام مخلوق پر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت واجب ہے۔
(2)… ہمارا ایمان حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت و شہادت پر مَوقوف ہے نہ کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایمان۔
(3)… اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :معلوم ہوا کہ دین و ایمان مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کا نام ہے،جو ان کی تعظیم میں کلام کرے اصلِ رسالت کو باطل وبیکار کیا چاہتا ہے۔(فتاوی رضویہ،۱۵ / ۱۶۸)
(4)… سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہروہ تعظیم جوخلاف ِشرع نہ ہو،کی جائے گی کیونکہ یہاں تعظیم و توقیر کے لئے کسی قسم کی کوئی قید بیان نہیں کی گئی،اب وہ چاہے کھڑے ہوکرصلوٰۃ و سلام پڑھناہویاکوئی دوسرا طریقہ۔
مسلمانوں سے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک درخواست:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی ایک مشہور و معروف کتاب’’تمہید ِایمان‘‘ میں سورۂ فتح کی مذکورہ بالا دو آیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مسلمانوں سے ایک درخواست کی ہے ،اس کی اہمیت کے پیش ِنظر یہاں ا س کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
پیارے بھائیو!السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو اور آپ کے صدقے میں اس ناچیز،کَثِیْرُ السَّیِّئاٰت کو دین ِحق پر قائم رکھے اور اپنے حبیب مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی محبت ،دل میں سچی عظمت دے اور اسی پر ہم سب کا خاتمہ کرے ۔ اٰمِیْنْ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔
تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا‘‘(فتح: ۸، ۹)
اے نبی! بے شک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ او رخوشخبری دیتا اور ڈر سناتا، تاکہ اے لوگو!تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو۔
مسلمانو! دیکھو دین ِاسلام بھیجنے ، قرآنِ مجید اتارنے کامقصود ہی تمہارے مولیٰ تبارک و تعالیٰ کاتین باتیں بتانا ہے:
اول یہ کہ لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائیں ۔
دوم یہ کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کریں ۔
سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رہیں ۔
مسلمانو!ان تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب تو دیکھو،سب میں پہلے ایمان کوفرمایا اور سب میں پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کو، اس لئے کہ بغیر ایمان، تعظیم بکار آمد نہیں ، بہتیر ے نصاری (یعنی بہت سے عیسائی ایسے) ہیں کہ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفعِ اعتراضاتِ کافرانِ لئیم (یعنی کمینے کافروں کے اعتراضات دور کرنے) میں تصنیفیں کرچکے ،لکچر دے چکے مگر جبکہ ایمان نہ لائے کچھ مفید نہیں کہ یہ ظاہری تعظیم ہوئی ،دل میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو ر ایمان لاتے، پھر جب تک نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی تعظیم نہ ہو عمر بھرعبادتِ الہٰی میں گزارے سب بیکارو مردود ہے، بہتیرے (یعنی بہت سے) جوگی اور ر اہب ترکِ دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکرو عبادتِ الہٰی میں عمرکاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اورضربیں لگاتے ہیں مگر اَزانجاکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم نہیں ،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل ِقبول بارگاہِ الہٰی نہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسوں ہی کو فرماتا ہے:
’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)
جوکچھ اعمال انہوں نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔
ایسوں ہی کو فرماتا ہے:
’’عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ(۳) تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً‘‘(غاشیہ:۳، ۴)
عمل کریں ، مشقتیں بھریں اوربدلہ کیاہوگایہ کہ بھڑکتی آگ میں پیٹھیں گے۔وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔
مسلمانو!کہو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم مدارِ ایمان ، مدارِنجات ،مدارِقبولِ اعمال ہوئی یا نہیں ، کہو ہوئے اور ضرورہوئے۔
تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(توبہ:۲۴)
اے نبی !تم فرمادوکہ اے لوگو!اگرتمہارے باپ ، تمھارے بیٹے ،تمھارے بھائی، تمھاری بیبیاں ،تمھارا کنبہ تمھاری کمائی کے مال او ر وہ سوداگری جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے اور تمھاری پسند کے مکان، ان میں کوئی چیزبھی اگر تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں کوشش کرنے سےزیادہ محبوب ہے تو انتظار رکھویہاں تک کہ اللہ اپناعذاباتارے اور اللہ تعالیٰ بے حکموں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز،کوئی عزیز،کوئی مال،کوئی چیز، اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو وہ بارگاہِ الہٰی سے مردود ہے ، اُسے اللہ اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اُسے عذابِ الہٰی کے انتظار میں رہنا چاہئے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔
تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: ’’ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وُلْدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنْ ‘‘ تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اُسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں ۔ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں انس بن مالک انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے۔( بخاری،کتاب الایمان،باب حبّ الرّسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان،۱ / ۱۷،الحدیث: ۱۵، مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب محبّۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم... الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)) اِس نے تو یہ بات صاف فرمادی کہ جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ کسی کو عزیز رکھے، ہرگزمسلمان نہیں ۔
مسلمانوکہو! مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام جہان سے زیادہ محبوب رکھنا مدارِ ایمان و مدارِنجات ہوایانہیں ۔ کہو ہوااور ضرور ہوا۔ یہاں تک توسارے کلمہ گو خوشی خوشی قبول کرلیں گے کہ ہاں ہمارے دل میں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِٖ وَسَلَّمَ کی عظیم عظمت ہے ۔ ہاں ہاں ماں باپ اولاد سارے جہان سے زیادہ ہمیں حضو ر کی محبت ہے۔ بھائیو!خدا ایسا ہی کرے مگرذرا کان لگا کر اپنے رب کا ارشادسنو۔
تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’الٓمّٓۚ(۱) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ‘‘(عنکبوت:۱، ۲)
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتناکہہ لینے پر چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔
یہ آیت مسلمانوں کو ہوشیار کررہی ہے کہ دیکھوکلمہ گوئی اور زبانی اِدِّعائے مسلمانی پرتمھارا چھٹکارا نہ ہوگا۔ ہاں ہاں سنتے ہو!آزمائے جاؤگے، آزمائش میں پورے نکلے تو مسلمان ٹھہروگے ۔ہر شے کی آزمائش میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ جو باتیں اس کے حقیقی واقعی ہونے کو درکار ہیں وہ ا س میں ہیں یانہیں؟ ا بھی قرآن و حدیث ارشاد فرماچکے کہ ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کودوباتیں ضرورہیں :
(1)… مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم ۔
(2)…اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبت کو تمام جہان پر تقدیم۔
تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم، کتنی ہی عقیدت ، کتنی ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو، جیسے تمھارے باپ ،تمھارے استاد،تمہارے پیر ،تمھارے بھائی ، تمھارے اَحباب، تمھارے اَصحاب،تمھارے مولوی ،تمھارے حافظ،تمھارے مفتی ،تمھارے واعظ وغیر ہ وغیرہ کَسے باشَد ،جب وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شانِ اقدس میں گستاخی کریں ، اصلاً تمہارے قلب میں ان کی عظمت ان کی محبت کا نام ونشان نہ رہے فوراً ان سے الگ ہوجاؤ ،دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو، اُن کی صورت اُن کے نام سے نفرت کھاؤ، پھرنہ تم اپنے رشتے، علاقے، دوستی، اُلفت کا پاس کرو، نہ اس کی مَولَوِیَّت،شَیْخِیَّت، بزرگی ، فضیلت کو خطرے میں لاؤ کہ آخر میں یہ جو کچھ تھا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی کی غلامی کی بنا ء پر تھا جب یہ شخص اُنھیں کی شان میں گستاخ ہوا پھرہمیں اس سے کیا علاقہ رہا، اس کے جُبّے عمامے پر کیا جائیں ، کیا بہتیرے (یعنی بہت سے) یہودی جبے نہیں پہنتے؟ عمامے نہیں باندھتے ؟ اس کے نام علم و ظاہری فضل کولے کر کیا کریں ، کیا بہتیر ے پادری ، بکثرت فلسفی بڑے بڑے علوم وفنون نہیں جانتے اوراگر یہ نہیں بلکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مقابل تم نے اس کی بات بنانی چاہی، اُس نے حضور سے گستاخی کی اور تم نے اس سے دوستی نباہی، یا اسے ہربرے سے بدتر برانہ جانا، یااسے براکہنے پر برامانا،یا اسی قد ر کہ تم نے اس امر میں بے پرواہی منائی، یا تمہارے دل میں اُس کی طرف سے سخت نفرت نہ آئی تو لِلّٰہ! اب تمھیں انصاف کرلو کہ تم ایمان کے امتحان میں کہاں پاس ہوئے ،قرآن و حدیث نے جس پر حصولِ ایمان کا مدار رکھا تھا اس سے کتنی دورنکل گئے۔
مسلمانو!کیا جس کے دل میںمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم ہوگی وہ ان کے بدگو کی وقعت کرسکے گا اگر چہ اُس کا پیر یا استادیا پدرہی کیوں نہ ہو ، کیا جسے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تمام جہان سے زیادہ پیارے ہوں وہ ان کے گستاخ سے فوراًسخت شدید نفرت نہ کرے گااگر چہ اس کا دوست ،یابرادر، یا پِسر ہی کیوں نہ ہو ، لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کرو اپنے رب کی بات سنو، دیکھو وہ کیوں کر تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے، دیکھو رب عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:
’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(مجادلہ:۲۲)
تُو نہ پائے گا اُنہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ اورقیامت پر کہ اُن کے دل میں ایسوں کی محبت آنے پائے جنہوں نے خداو رسول سے مخالفت کی، چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاعزیزہی کیوں نہ ہوں ، یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مددفرمائی اور انہیں باغوں میں لے جائیگا ،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ہمیشہ رہیں گے ان میں ، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہی لوگ اللہ والے ہیں ۔ سنتا ہے اللہ والے ہی مراد کو پہنچے۔
اس آیت ِکریمہ میں صاف فرمادیا کہ جو اللہ یا رسول کی جناب میں گستاخی کرے،مسلمان اُس سے دوستی نہ کرے گا ، جس کا صریح مفاد ہوا کہ جو اس سے دوستی کرے گا وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اس حکم کا قطعاً عام ہونا بِالتَّصریح ارشاد فرمایا کہ باپ ،بیٹے ،بھائی ،عزیز سب کوگِنا یا یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں مُعَظَّم یا کیسا ہی تمھیں بِالطَّبع محبوب ہو، ایمان ہے تو گستاخی کے بعد اُس سے محبت نہیں رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ مَولٰی سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھامگردیکھو وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں کا لالچ دلاتا ہے کہ اگر اللہ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا، کسی سے علاقہ نہ رکھا تو تمہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے۔
(1)…اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ایمان نقش کردے گا ،جس میں اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰی حسن ِخاتمہ کی بشارتِ جلیلہ ہے کہ اللہ کا لکھا نہیں مٹتا۔
(2)…اللہ تعالیٰ رُوح القدُس سے تمہاری مددفرمائے گا۔
(3)…تمہیں ہمیشگی کی جنتوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
(4)…تم خدا کے گروہ کہلاؤگے ، خدا والے ہوجاؤگے۔
(5)…منہ مانگی مرادیں پاؤگے بلکہ امید و خیال و گمان سے کروڑوں درجے افزوں ۔
(6)…سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تم سے راضی ہوگا۔
(7)…یہ کہ فرماتاہے’’میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی ‘‘بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا’’اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے راضی ۔
مسلمانو!خدا لگتی کہنا :اگر آدمی کروڑجانیں رکھتا ہو اور وہ سب کی سب ان عظیم دولتوں پر نثار کردے تو وَاللہ کہ مفت پائیں ، پھرزیدوعَمْرْوْ سے علاقۂ تعظیم و محبت،یک لَخت قطع کردینا کتنی بڑی بات ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ ان بے بہا نعمتوں کا وعدہ فرمارہاہے اور اس کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۳۰۷-۳۱۲)
نوٹ:مذکورہ بالا کلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مشہوررسالے ’’تَمْہِیْدِ اِیْمَان بَآیَاتِ قُرْآن‘‘ سے نقل کیا ہے ،یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود ہے اور جداگانہ بھی چَھپا ہوا ہے،ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس رسالے کا ضرور مطالعہ کرے ۔