Home ≫ ur ≫ Surah Al Fatiha ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔}رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ
کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی
ہے : بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور
پرنعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ
وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر چھوٹی، بڑی ، ظاہری،
باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ
ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ
پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے
فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا
چاہئے:
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے،اس کی
وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ
وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے ،تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے
دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی
وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو ا
س کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو
اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان
ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت
کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور
مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور
اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے،چنانچہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ
الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ‘‘(حجر: ۴۹، ۵۰)
ترجمۂ کنزالعرفان:میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا
مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ
قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا
هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘(مومن: ۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت
عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،
اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر
مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا
اور اگر کافر جان لیتاکہ اللہ
تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت
ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔(مسلم،
کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ ۔۔۔ الخ، ص۱۴۷۳، الحدیث:۲۳(۲۷۵۵)) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ
وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ
کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
کسی کورحمٰن اور رحیم
کہنے کے بارے میں شرعی حکم :
اللہ تعالیٰ کے علاوہ
کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے جیسے قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ نے اپنے
حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ،
مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔