Home ≫ ur ≫ Surah Al Fatiha ≫ ayat 4 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُﭤ(4)
تفسیر: صراط الجنان
{اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ
اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ:ہم تیری ہی عبادت کرتے
ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی
حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے جو کہ سب
جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس آیت سے بندوں
کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا
مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا
سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی
کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔
عبادت کامفہوم بہت واضح
ہے، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اُس کی
کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ
محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا
عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اُستاد، پیر یا ماں باپ کے
لئے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا
ہے۔
آیت’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ سے معلوم ہونے والی
اہم باتیں :
آیت میں جمع کے
صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ
ادا کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں
کی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی
ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد
طلب کرنے سے پہلے ذکر کیاگیا کیونکہ حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔(مدارک، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۴)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کی برکت:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں کسی کا وسیلہ پیش کر کے اپنی حاجات کے لئے دعا کیا کرے تاکہ اُس وسیلے کے صدقے
دعا جلدمقبول ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں وسیلہ پیش کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ وسیلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ‘‘( مائدہ: ۳۵)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
اور ’’سُننِ ابنِ ماجہ‘‘
میں ہے کہ ایک نابینا صحابی بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے
طالب ہوئے تو آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اس طرح دعا مانگنے کا حکم دیا: ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ
اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ قَدْ تَوَجَّہْتُ
بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں
اور تیری طرف نبیِ رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں
اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے
رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس
حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے ، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ، پس تومیرے لئے
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ
الحاجۃ، ۲ / ۱۵۷،
الحدیث: ۱۳۸۵)
حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علماء
تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی
حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ
نام لے کر نہ پکارے(تو) غلام کی کیا مجال کہ(وہ) راہِ ادب سے تجاوز کرے، بلکہ امام
زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا:اگریہ لفظ کسی دعا میں وارد ہوجو خود نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمائی(ہو) جیسے
دعائے ’’ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ
تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ‘‘۔تاہم اس کی جگہ یَارَسُوْلَ اللہْ، یَا نَبِیَّ
اللہْ(کہنا) چاہیے ، حالانکہ
الفاظِ دعا میں حَتَّی الوُسْعَ تغییر نہیں کی جاتی ۔یہ مسئلہ مہمہ(یعنی اہم ترین
مسئلہ) جس سے اکثر اہل زمانہ غافل ہیں واجب الحفظ ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۵۷-۱۵۸)
{وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ: اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔}اس آیت میں بیان کیاگیا کہ مدد
طلب کرنا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر ہو ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالیٰ
کی ذات ہی ایسی ہے جس سے حقیقی طور پر مدد طلب کی جائے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات
قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ
کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ا س کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ
کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’شرک‘‘ ہے اور
کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے علاوہ
کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ
کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے
کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی
ذات سے موجود ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،اس
کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا
جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہو اور حقیقی تعلیم
کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالیٰ
کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک
شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب
کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ
کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالیٰ
کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرِخدا ہی کے لئے خاص ہیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ وسیلہ اور
واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے
سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے
والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا
سے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم
اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہٰی میں ہمارا وسیلہ،ذریعہ اور قضائے
حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے:
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ
ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ
لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء: ۶۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب وہ اپنی جانوں پر
ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے
معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو
توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
کیا اللہ تعالیٰ اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے
نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے
ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف
فرما رہی ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱
/ ۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)
زیر تفسیر آیت کریمہ کے
بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ
لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ (مدد طلب کرنے والوں کے
لئے امداد کی برکتیں)‘‘کا
مطالعہ فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا
اختیار دیتا ہے اور اُس اِختیار کی بنا پر اُن بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے
آکر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی مدد کی، لیکن اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ
نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ
اَذِلَّةٌ ‘‘( اٰل عمران: ۱۲۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔
یہاں فرشتوں کی مدد
کو اللہ تعالیٰ کی مدد کہا گیا، اِس کی
وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اِختیار اللہ تعالیٰ
کے دینے سے ہے تو حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ہوئی۔
یہی معاملہ انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتاً وہ مدداللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، جیسے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے وزیر حضرت آصف
بن برخیا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے تخت لانے کا فرمایا
اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا۔اس پر انہوں نے فرمایا: ’’هٰذَا مِنْ فَضْلِ
رَبِّیْ‘‘ترجمۂ کنزالعرفان:یہ میرے رب کے فضل سے
ہے۔(نمل :۴۰) اورتاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں مدد
کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب
ہو سکتی ہے،ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں :
(1)…صحیح بخاری میں ہے کہ
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا۔(بخاری،
کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱، الخصائص
الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر
ما تقدّم، ۲ / ۸۵)
(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے دودھ کے ایک پیالے سے
ستر صحابہ کوسیراب کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب
کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش
النبی۔۔۔ الخ، ۱۵ / ۵۳۶)
(3)… انگلیوں سے پانی کے
چشمے جاری کر کے چودہ سو(1400)یا اس سے بھی زائد اَفراد کو سیراب کر دیا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳ /
۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳)
(4)… لُعابِ د ہن سے بہت
سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔(الخصائص الکبری، باب آیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔
الخ، ۲ / ۱۱۵-۱۱۸)
اور یہ تمام مددیں
چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت
سے تھیں لہٰذا سب اللہ تعالیٰ کی ہی مددیں
ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30ویں جلد میں موجود اعلیٰ
حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے رسالے ’’اَ
لْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ البلاء( مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء
یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کامطالعہ فرمائیے۔