Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 20 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِؕ-وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةًؕ-اَتَصْبِرُوْنَۚ-وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا(20)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ: اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے۔} اس آیت میں کفار کے اس طعن کا جواب دیا گیاہے جو اُنہوں نے سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کیا تھا کہ وہ بازاروں میں چلتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں ، یہاں بتایا گیا کہ یہ اُمور نبوت کے مُنافی نہیں بلکہ یہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مستقل عادت تھی لہٰذا یہ اعتراض محض جہالت اور عِناد پر مبنی ہے۔
{وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً: اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کیلئے آزمائش بنایا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں تین قول ہیں :
(1)… امیر لوگ جب اسلام لانے کاارادہ کرتے تھے تو وہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لاچکے اس لئے انہیں ہم پر ایک فضیلت رہے گی۔اس خیال سے وہ اسلام قبول کرنے سے باز رہتے اور امیروں کے لئے غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آزمائش بن جاتے۔
(2)… یہ آیت ابوجہل، ولید بن عقبہ، عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی، ان لوگوں نے حضرت ابو ذر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمار بن یاسر، حضرت بلال، حضرت صہیب اور حضرت عامر بن فُہَیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں تو اُنہیں جیسے ہوجائیں گے توہم میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا۔
(3)… یہ آیت مسلمان فقراء کی آزمائش میں نازل ہوئی جن کا کفارِ قریش مذاق اُڑایاکرتے تھے اور کہتے تھے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والے یہ لوگ ہیں جو ہمارے غلام اور اَرذَل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور اُن مؤمنین سے فرمایا: ’’کیا تم اس فقر و شدت پر اور کفار کی اس بدگوئی پرصبر کرو گے اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اس کو خوب دیکھنے والاہے جو صبر کرے اور اس کو بھی جو بے صبری کرے۔‘‘( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۶۹)
غربت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا کا مال نہ ہونا اور غربت کا شکار ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، ایسے موقع پر صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، اس جگہ ہم 3 ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں کہ اگر غریب اور مَفلوکُ الْحال مسلمان ان پر عمل کر لیں تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں صبر و قرار نصیب ہو جائے گا۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص ا س کی طرف دیکھتا ہے جس کو اس پر مال اور شکل و صورت میں فضیلت حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے سے کم درجے والے کی طرف دیکھے جس پر اسے فضیلت حاصل ہے۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۸(۲۹۶۳))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے سے کم حیثیت والے کی طرف دیکھو اور جو تم سے زیادہ حیثیت کا ہے اس کی طرف نہ دیکھو کیونکہ یہ عمل اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم (اپنے اوپر) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حقیر نہ جانو۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۹(۲۹۶۳))
(3)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو باتیں ایسی ہیں جس میں وہ پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں لکھے گا۔ (۱)جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے۔ (۲)دُنیوی اُمور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی۔ اور جو آدمی دینی اُمور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دُنیوی اُمور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور ا س پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا۔‘‘( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۸-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۲۰)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان احادیث پر عمل کرنے اور غربت و مسکینی کی حالت میں صبر و شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔