banner image

Home ur Surah Al Furqan ayat 23 Translation Tafsir

اَلْفُرْقَان

Al Furqan

HR Background

وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(23)

ترجمہ: کنزالایمان اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصد فرماکر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرّے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا: تو ہم اسے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح بنادیں  گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں  جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں  گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں  کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں  نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح انہیں  بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں  گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں  مُیَسَّر نہ تھا۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)

قیامت کے دن کچھ مسلمانوں  کے اعمال بے وقعت کر دئیے جائیں  گے:

            اس آیت میں  قیامت کے دن کفار کے اعمال باطل ہونے کا ذکرکیا گیا ہے جبکہ اَحادیث میں  بعض ایسے مومنین کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کے اعمال قیامت کے دن بے وقعت کر دئیے جائیں  گے۔ چنانچہ اس سلسلے میں  یہاں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  اپنی امت میں  سے ان لوگوں کو جانتا ہوں  کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں  گے تو ان کی نیکیاں  تہامہ کے پہاڑوں  کی مانند ہوں  گی لیکن اللہ تعالٰی انہیں  روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے سامنے ان لوگوں  کا صاف صاف حال بیان فرما دیجئے تاکہ ہم جانتے ہوئے ان لوگوں  میں  شریک نہ ہو جائیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’وہ تمہارے بھائی، تمہارے ہم قوم ہوں  گے، راتوں  کو تمہاری طرح عبادت کیا کریں  گے، لیکن وہ لوگ تنہائی میں  برے اَفعال کے مُرتکب ہوں  گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۹، الحدیث: ۴۳۴۵)

(2)…حضرت ابو حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں  گے کہ ان کے پاس تہامہ کے پہاڑوں  کے برابر نیکیاں  ہو ں  گی،یہاں  تک کہ جب انہیں  لایا جائے گا تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال کو روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا،پھر انہیں  جہنم میں  ڈال دے گا۔ حضرت سالِم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں  باپ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان ہو جائیں ! ہمیں  ان لوگوں  کا حال بتا دیجئے ؟ارشاد فرمایا:’’وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں  گے، روزے رکھتے ہوں  گے، نیند سے بیدار ہو کر راتوں  کو قیام کرتے ہوں  گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی حرام چیز پیش کی جائے تو وہ اس پر کود پڑتے ہوں  گے، تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال باطل فرما دے گا۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، سالم مولی ابی حذیفۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۵۷۵)

            اللہ تعالٰی ہمیں  اپنی اصلاح کرنے اور قیامت کے دن اعمال باطل ہوجانے والوں  میں  شامل ہونے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔