Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 50 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا ﳲ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(50)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ: اور بیشک ہم نے لوگوں میں بارش کے پھیرے رکھے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے بادل پیدا کرنے اور بارش نازل کرنے کا ذکر قرآن پاک (کی متعدد سورتوں ) میں اور سابقہ رسولوں پر نازل ہونے والی تمام کُتب میں کیا تاکہ لوگ غوروفکر کر کے نصیحت حاصل کریں اور اللہ تعالٰی کے اس احسان کو پہچان کر اس کا شکر ادا کریں لیکن بہت سے لوگوں نے نعمت کی ناشکری کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے لوگوں میں بارش کے پھیرے رکھے کہ کبھی کسی شہر میں بارش ہو کبھی کسی میں ، کبھی کہیں زیادہ ہو اور کبھی کہیں حکمت کے تقاضے کے مطابق مختلف طور پر ہو تاکہ لوگ ہمارے اس احسان کویاد رکھیں اور اللہ تعالٰی کی قدرت و نعمت میں غور کریں لیکن بہت سے لوگوں نے ا س ا حسان کی ناشکری کرنے کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ بارش کے نزول کو صرف ظاہری اسباب کی طرف منسوب کرنے لگ گئے اور اللہ تعالٰی کے فضل و رحمت کو یاد نہ کیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۰۶، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۷۵-۳۷۶، ملتقطاً)
اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے یوں کہ اللہ تعالٰی کی طرف اصلاً اس کی نسبت نہ ہو کہ یہ بھی بعض اوقات ایک قسم کی ناشکری ہے اور بطورِ خاص کفار جن چیزوں کو حقیقی مُؤثِّر مان کر نسبت کرتے ہیں ان کی طرف تو تنہا نسبت ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت زیدبن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر صبح کی نماز فجر پڑھائی جس کی رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے فرمایا: ’’میرے بندوں نے صبح کی تو کچھ مومن رہے اور کچھ کافر ہو گئے، جس نے کہا ہم پر اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا ہے اور جس نے کہا ہم پر فلاں ستارے نے بارش برسائی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر یقین رکھا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۴۶) حدیث پاک میں کفر سے مراد حقیقی کفر اس صورت میں ہے جب ستاروں کو مُؤثِّرِ حقیقی اعتقاد کرکے یہ بات کہی گئی ہو۔