Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 59 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۚۛ-اَلرَّحْمٰنُ فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا(59)
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ: چھ دن میں ۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنائے۔اس سے مراد یہ ہے کہ چھ دن کی مقدار میں بنائے، کیونکہ اس وقت رات، دن اور سورج تو تھے ہی نہیں اور اتنی مقدار میں پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم دینے کے لئے ہے، ورنہ وہ ایک لمحہ میں سب کچھ پیدا کردینے پر قادر ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۲۳۴)
نوٹ: آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کرنے کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات کے لئے سورہ ٔاَعراف آیت نمبر54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{اِسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: عرش پر اِستواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔} علماء فرماتے ہیں کہ استواء اور اس طرح کی جو چیزیں قرآن پاک کی آیات میں ذکر ہوئی ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت کے درپَے نہیں ہوتے، ان کی کیفیت کو اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ بعض مفسرین اِستواء کو بلندی اور برتری کے معنی میں لیتے ہیں اور بعض اِستیلا ء کے معنی میں لیکن پہلا قول ہی زیادہ مضبوط اور سلامتی والاہے یعنی یہ کہ اس کی حقیقی مراد اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
نوٹ:اللہ تعالٰی کے عرش پر استواء فرمانے کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ اَعراف آیت نمبر 54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا: تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ۔} اس آیت میں انسان سے خطاب ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی صفات کسی ایسے شخص سے دریافت کرے جو اللہ تعالٰی کی معرفت رکھتا ہو۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۰۸)