Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 63 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(63)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ: اور رحمٰن کے وہ بندے۔} ا س سے پہلی آیات میں کفار و منافقین کے احوال اور ان کا انجام ذکر ہوا،اب یہاں سے کامل مومنین کے تقریباً12اَوصاف بیان کئے گئے ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (1)وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(2) جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘(3) وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔(4)جہنم کا عذاب پھر جانے کی اللہ تعالٰی سے دعائیں کرتے ہیں ۔ (5) اِعتدا ل سے خرچ کرتے ہیں ،اس میں نہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں ۔ (6) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے۔ (7) جس جان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے، اسے قتل نہیں کرتے۔(8) بدکاری نہیں کرتے۔ (9) جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(10)جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔(11) جب انہیں ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے۔(12) وہ یوں دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
{اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔} اس آیت میں بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۸۰۹، ملخصاً) کہ یہ متکبرین کی شان ہے اور شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
’’وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔
سکون اور وقار کے ساتھ چلنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومن کو آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار کے ساتھ چلنا چاہئے۔ اَحادیث میں بھی اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ یہاں3اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے لئے سکون (سے چلنا) ضروری ہے کیونکہ دوڑنے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔( بخاری، کتاب الحج، باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالسکینۃ عند الافاضۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۵۸، الحدیث: ۱۶۷۱)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا ایمان والوں کی ہیبت ختم کر دیتا ہے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر جماعۃ من العارفین العراقیین، محمد بن یعقوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۵۳۰۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا چہرے کے حسن کو ختم کر دیتا ہے۔(کنز العمال،کتاب المعیشۃ والآداب،قسم الاقوال، آداب المشی، ۸ / ۱۷۵، الحدیث:۴۱۶۱۴، الجزء الخامس عشر)
اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو اس طرح چلنے کی توفیق عطا فرما ئے جو شریعت کا پسندیدہ طریقہ ہے اور اس طرح چلنے سے محفوظ فرمائے جس سے شریعت نے منع کیا اور اسے ناپسند فرما یا ہے، اٰمین۔
{وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں ۔} یہاں یہ بیان ہو اکہ کامل ایمان والے دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔( ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۱۴۸)
جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی معاملے میں کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنےکی کوشش ہی کرنی چاہئے اور اس کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں اگر کوئی بات کریں تو وہ ایسی ہو جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کاباعث بھی نہ ہو،ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں ایک واقعہ ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت نعمان بن مقرن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا، اس نے یہ کہنا شروع کر دیا:تم پر سلام ہو۔اس پررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سنو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو (اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے،جب یہ تمہیں برا بھلاکہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تم ایسے ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو، اور جب تم اس سے کہتے ہو’’تم پر سلام ہو‘‘ تو فرشتہ کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تمہارے لئے سلامتی ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو۔(مسند امام احمد، حدیث النعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۳۸۰۶)