Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 67 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(67)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں ۔} یہاں کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال ذکرفرمایا جارہا ہے کہ وہ اسراف اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔
اِسراف اور تنگی کرنے سے کیا مراد ہے؟
اسراف مَعصِیَت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ اسراف میں کوئی بھلائی نہیں تودوسرے بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: ’’بھلائی کے کام میں اسراف ہوتاہی نہیں ۔ اور تنگی کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالٰی کے مقرر کئے ہوئے حقوق ادا کرنے میں کمی کرے۔ مروی ہے کہ جس نے کسی حق کو منع کیا اُس نے اِقتار یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اس نے اسراف کیا۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بڑے بڑے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں جو لذت اور ناز و نعمت میں زندگی بسر کرنے کے لئے کھاتے، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے۔ بھوک روکنا، ستر چھپانا، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا بس یہی ان کا مقصد تھا۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۱۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۷۹، ملتقطاً)
ضروریاتِ زندگی میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا زُہد :
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ دنیا سے بے رغبت رہتے اوردنیا سے صرف اتنا ہی لیا کرتے تھے جتنا ان کی اہم ضروریاتِ زندگی کے لئے کافی ہو،نیز وہ عیش و عشرت اور ناز ونعمت میں زندگی بسر کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارتے اور اپنے نفس کو دنیا کی سختی اورمشقت برداشت کرنے کا عادی بناتے اور دُنْیَوی زندگی کے قیمتی لمحات کو اپنی آخرت کی زندگی بہتر سے بہتر بنانے میں صَرف کیاکرتے تھے۔حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے ستر بدریصحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھا، وہ اللہ تعالٰی کی حلال کردہ اَشیاء سے اس قدر اِجتناب کرتے تھے جتنا تم حرام اشیاء سے پرہیز نہیں کرتے۔دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ آزمائشوں پر خوش ہو اکرتے تھے،اگر تم انہیں دیکھ لیتے تو کہتے یہ مجنون ہیں ،اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہتے: ان لوگوں کا کوئی اخلاق نہیں ،اور اگر وہ تم میں سے برے لوگوں کو دیکھتے تو کہتے:ان کا قیامت کے دن پر ایمان نہیں ۔ ان میں سے ایک کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ نہ لیتا اور کہتا:مجھے اپنے دل کے خراب ہونے کا ڈر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۷)
یہاں ان کی زُہد و تقویٰ سے بھر پور زندگی کے4 واقعات ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اہلِ بصرہ کا ایک وفد حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی معیت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور (کچھ دنوں میں ) انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روزانہ ایک چھوٹی روٹی تناول فرماتے ہیں اور یہ روٹی کبھی گھی کے ساتھ، کبھی زیتون کے ساتھ اور کبھی دودھ کے ساتھ کھاتے ہیں اورآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو کبھی خشک گوشت کے ٹکڑے ملتے جنہیں کوٹ کر پانی سے تر کیا ہوا ہوتا اور کبھی تھوڑ اسا تازہ گوشت ملتا۔ایک دن آپ نے اہلِ بصرہ سے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں تم سے اچھا کھانا کھا سکتا ہوں ، آسائش والی زندگی گزار سکتا ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں سینے کے گوشت،گھی،آگ پر بھنے ہوئے گوشت، چٹنی اور چپاتیوں سے ناواقف نہیں ہوں (لیکن میں انہیں اللہ تعالٰی کے خوف کی وجہ سے استعمال نہیں کرتا) کیونکہ ایسی چیزوں کو استعمال کرنے پر اللہ تعالٰی نے ایک قوم کو عار دلائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا‘‘( الاحقاف:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم اپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے۔(اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن مجھ سے بھی یہ نہ فرما دیاجائے۔)(الزہد لابن مبارک، باب ما جاء فی الفقر، ص۲۰۴، روایت نمبر: ۵۷۹، الجزء الاوّل)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :قحط سالی کے دنوں میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے خود کو گھی کھانے سے روک رکھا تھا اور آپ صرف زیتون پر گزارا کیا کرتے تھے۔ایک دن زیتون کھانے کی وجہ سے آپ کے پیٹ میں تکلیف ہونے لگی تو آپ نے پیٹ پر انگلی مار کر فرمایا: ’’تجھے جتنی تکلیف ہوتی ہے ہوتی رہے، جب تک لوگوں سے فاقہ کی سختی ختم نہیں ہو جاتی تیرے لئے میرے پاس یہی کچھ ہے۔(الزہد لابن حنبل، زہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ص۱۴۵، روایت نمبر: ۶۰۸)
(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے دورِ خلافت میں تین درہم کا ایک کپڑ اخریدا اور اسے پہنا، آپ نے ا س کی آستینیں کلائیوں سے کاٹ کر فرمایا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جس نے مجھے اپنے عمدہ لباس میں سے یہ لباس پہنایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۸)
(4)…جب حمص کے گورنر حضرت عمیر بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: ’’تم کیاکچھ لے کر آئے ہو؟ حضرت عمیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’میرے پاس میرا تھیلاہے جس میں اپنازادِراہ رکھتاہوں ، ایک پیالہ ہے جس میں کھاناکھاتاہوں اور اسی سے اپناسر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ، ایک پانی کا برتن ہے جس میں پانی پیتاہوں اور وضو وغیرہ کرتاہوں اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتاہوں اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دُنْیَوی مال و مَتاع نہیں۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الاولی، ص۱۳)