banner image

Home ur Surah Al Furqan ayat 8 Translation Tafsir

اَلْفُرْقَان

Al Furqan

HR Background

اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَاؕ-وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا(8)

ترجمہ: کنزالایمان یا غیب سے انہیں کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے کھاتے اور ظالم بولے تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا۔ ترجمہ: کنزالعرفان یا اس کی طرف کوئی (غیبی) خزانہ ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے یہ کھاتا؟ اور ظالموں نے کہا: تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوْ یُلْقٰى: یا ڈال دیا جاتا۔} اس آیت میں  رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کفارِ قریش کی مزید بیہودہ باتیں  بیان کی گئیں  کہ انہوں  نے کہا : ان کی طرف آسمان سے کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا اور یہ معاش کے حصول سے بے نیاز ہو جاتے، اور اگر انہیں  کوئی خزانہ نہیں  ملنا تھا تو کم از کم ان کا کوئی باغ تو ہوتا جس میں  سے یہ مالداروں  کی طرح کھاتے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۱۹۲)

 اللہ تعالیٰ کی عطا سے غیبی خزانے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  ہیں :

            یاد رہے کہ ان سب باتوں  سے کفارکا منشا یہ تھا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھانے پینے سے بے نیاز کیوں  نہ کردیا، یا تو انہیں  کھانا کھانے کی حاجت ہی نہ ہوتی،اگر تھی تو غیبی خزانے ان پر آجاتے جس سے انہیں  کمانے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ بھی انہوں  نے ظاہر کے لحاظ سے کہہ دیا، ورنہ  اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  غیبی خزانے تھے اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جنتی باغوں  پر قابض بھی تھے، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ ہم نے آپ کو کوثر بخش دیا۔( کوثر)

             اور حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود فرماتے ہیں : ’’اُعْطِیْتُ  مَفَاتِیْحَ خَزَائِنِ الْاَرْضِ‘‘ مجھے زمینی خزانوں  کی کنجیاں  عطا فرمادی گئیں ۔( بخاری، کتاب الجناءز، باب الصلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)

            اور فرماتے ہیں  کہ’’اگر میں  چاہوں  تو میر ے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں ۔‘‘( شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب تواضعہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۴۰، الحدیث: ۳۵۷۷)

            اورفرماتے ہیں  کہ میں  نے (دورانِ نمازقبلہ کی دیوار میں )      جنّت دیکھی اوراس سے ایک خوشہ لینا چاہا اور اگر لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اس سے کھاتے ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی الامام فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۴۸)

            مگر چونکہ کفار کے سامنے ان چیزوں  کا ظہو ر نہ تھا اس لئے کفار ایسی باتیں  کہا کرتے تھے۔

{وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ: اور ظالموں  نے کہا۔} کفار کے بارے میں  مزید ارشاد فرمایا کہ انہوں نے مسلمانوں  سے کہا: تم ایک ایسے مرد کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو ہے اور مَعَاذَ اللہ ان کی عقل ٹھکانے پر نہیں  ہے۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۰۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ کفار کو خود اپنی بات پر قرار نہ تھاکبھی حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادوگر کہتے تھے اور کبھی کہتے کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن، وہ خود اپنے قول سے جھوٹے تھے۔