banner image

Home ur Surah Al Hadid ayat 16 Translation Tafsir

اَلْحَدِيْد

Hadid

HR Background

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(16)

ترجمہ: کنزالایمان کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ اُن کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے اور مسلمان ان جیسے نہ ہوں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: کیا ایمان والوں  کیلئے ابھی وہ وقت نہیں  آیا ۔}اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ( اپنے دولت سرائے اقدس سے) باہرآئے اور مسجد میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے ،وہ لوگ آپس میں ہنس رہے تھے ۔آپ ان کے پاس اس حال میں  آئے کہ آپ کی چادر مبارک گھسٹ رہی تھی اور چہرۂ انور سرخ تھا۔ آپ نے (ان سے) ارشاد فرمایا’’ تم ہنس رہے ہو حالانکہ ابھی تک تمہارے رب کی طرف سے امان نہیں  آئی کہ ا س نے تمہیں  بخش دیا ہے اور تمہارے ہنسنے پر یہ آیت نازل ہوئی ہے’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس ہنسی کا کفارہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا اتنا ہی رونا۔( در منثور، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۷)

            ا س آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ایمان والوں  کے لئے ابھی وہ وقت نہیں  آیا کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور قرآن کی آیتیں  پڑھی جائیں  تو ان کے دل نرم پڑ جائیں ۔

            حضرت نافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب اس آیت ِمبارکہ ’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘ کی تلاوت کرتے تو آپ کی آنکھوں  سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ بے حال ہو جاتے ۔( ابن عساکر، عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب... الخ، ۳۱ / ۱۲۷)

             اوراسی آیتِ مبارکہ کو سن کر بہت سے لوگ اپنے گناہوں  سے تائب ہوئے اور ولایت کی عظیم منازل پر فائز ہوئے،یہاں  ہم اس کے دو واقعات ذکر کرتے ہیں ۔

 حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی توبہ:

          حضرت فضل بن موسیٰ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (توبہ سے پہلے) ڈاکو تھے اور’’ ابیورد‘‘ اور ’’سرخَس‘‘ کے درمیان ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے،ا ن کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ انہیں  ایک لونڈی سے عشق ہو گیا،ایک مرتبہ وہ ا س کے پاس جانے کے لئے دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اس وقت کسی نے یہ آیت پڑھی ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘جونہی یہ آیت آپ نے سنی تو بے اختیار آپ کے منہ سے نکلا ’’کیوں  نہیں  میرے پروردگار! اب اس کا وقت آگیا ہے ۔ چنانچہ آپ دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سنسان اور بے آباد کھنڈر نما مکان میں  جاکر بیٹھ گئے ۔ وہاں  ایک قافلہ موجود تھا اور شُرکائے قافلہ میں  سے بعض کہہ رہے تھے کہ ہم سفر جاری رکھیں  گے اور بعض نے کہا کہ صبح تک یہیں  رک جاؤ کیونکہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اَطراف میں  رہتا ہے ، کہیں  وہ ہم پر حملہ نہ کر دے۔ آپ نے قافلے والوں  کی باتیں  سنیں  تو غور کرنے لگے اور کہا:(افسوس) میں  رات کے وقت بھی گناہ کرتا ہوں  اور(میرے گناہوں  کی وجہ سے) مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں  مجھ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں  حالانکہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے پاس اس حال میں  لایا ہے کہ میں اب اپنے جرم سے رجوع کر چکا ہوں ، اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں  تیری بارگاہ میں  توبہ کرتا ہوں  اور اب میں  (ساری زندگی) کعبۃُ اللہ کی مجاوری میں  گزاروں  گا ۔( شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فی محقرات الذنوب، ۵ / ۴۶۸، الحدیث: ۷۳۱۶)

 حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی توبہ :

             حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (توبہ سے پہلے) نشہ کے عادی تھے، آپ کی توبہ کا سبب یہ بنا کہ آپ اپنی ایک بیٹی سے بہت محبت کیا کرتے تھے، اس کا انتقال ہوا تو آپ نے شعبان کی پندرھویں  رات خواب دیکھا کہ آپ کی قبر سے ایک بہت بڑا اژدھا نکل کر آپ کے پیچھے رینگنے لگا ہے، آپ جب تیز چلنے لگتے تووہ بھی تیز ہو جاتا، پھر آپ ایک کمزور سن رسیدہ شخص کے قریب سے گزرے تو اس سے کہا ’’ مجھے اس اژدھے سے بچائیں ۔ انہوں  نے جواب دیا’’ میں  کمزور ہوں ، رفتار تیز کر لو شاید اس طرح اس سے نجات پا سکو۔ تو آپ مزید تیز چلنے لگے، اژدھا پیچھے ہی تھا یہاں  تک کہ آپ آگ کے ابلتے ہوئے گڑھوں  کے پاس سے گزرے، قریب تھا کہ آپ اس میں  گرجاتے، اتنے میں  ایک آواز آئی:تو میرا اہل نہیں  ہے۔ آپ چلتے رہے حتّٰی کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے، اس پر شامیانے اور سائبان لگے ہوئے تھے، اچانک ایک آواز آئی:اس ناامید کو دشمن کے نرغے میں  جانے سے پہلے ہی گھیر لو۔ تو بہت سے بچوں  نے انہیں  گھیر لیاجن میں  آپ کی وہ بیٹی بھی تھی، وہ آپ کے پاس آئی اور اپنا دایاں  ہاتھ اس اژدھے کو مارا تو وہ بھاگ گیا اور پھر وہ آپ کی گود میں  بیٹھ کر یہ آیت پڑھنے لگی:’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ‘‘آپ فرماتے ہیں  کہ میں  نے اپنی اس بیٹی سے پوچھا ’’کیا تم(فوت ہونے والے) قرآن بھی پڑھتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا :’’جی ہاں ! ہم آپ(یعنی زندہ لوگوں )سے زیادہ اس کی معرفت رکھتے ہیں ۔پھر آپ نے اس سے اس جگہ ٹھہرنے کا مقصد پوچھا تو اس نے بتایا :’’یہ بچے قیا مت تک یہاں  ٹھہر کر اپنے ان والدین کا انتظار کریں  گے جنہوں  نے انہیں  آگے بھیجاہے۔پھر اس اژدھے کے بارے میں  پوچھا تو اس نے بتایا ’’وہ آپ کا برا عمل ہے۔ پھر اس ضعیف العمرشخص کے بارے میں  پوچھا تو اس نے بتایا :’’وہ آپ کا نیک عمل ہے، آپ نے اسے اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اس میں  آپ کے برے عمل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کریں  اور ہلاک ہونے سے بچیں ۔ پھر وہ بلندی پر چلی گئی جب آپ بیدار ہوئے تو اسی وقت سچی توبہ کرلی۔( روض الریاحین، الفصل الثانی فی اثبات کرامات الاولیاء، الحکایۃ الحادیۃ والخمسون بعد المئۃ، ص۱۷۳)

{وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ:  اور مسلمان ان جیسے نہ ہوں  جنہیں  پہلے کتاب دی گئی۔}اس  آیت میں  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو ان یہودیوں  اور عیسائیوں  کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا جنہیں  ان سے پہلے کتاب ( تورات اور انجیل )دی گئی، جب ان پر ( ان کے اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان کی) مدت دراز ہو گئی تو(ان کا حال یہ ہوا کہ ) انہوں  نے اپنے ہاتھوں  سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  تبدیلی کر دی اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلی اور اس کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور مختلف نظریات اور عجیب وغریب اَقوال کے درپے ہوئے اور دینِ الٰہی کے اَحکام پر لوگوں  کے کہنے کے مطابق عمل کرنے لگے اور انہوں  نے اپنے علماء اور راہبوں  کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنا رب مان لیا تو اس وقت ان کے دل سخت ہو گئے اور(ا س سختی کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا کہ وہ) کسی نصیحت کو قبول کرتے ہیں  اور نہ ہی جنت کی بشارت اور جہنم کی وعید سن کر ان کے دل نرم ہوتے ہیں  ۔ ان کے دل بھی فاسد اور اعمال بھی باطل ہیں  جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةًۚ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖۙ-وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ‘‘( مائدہ:۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم  نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ وہ اللہ کی باتوں  کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں  اور انہوں  نے ان نصیحتوں  کا بڑا حصہ بھلا دیا جو انہیں  کی گئی تھیں ۔

            یعنی،ان کے دلوں  میں  فساد آ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ سخت ہو گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  تحریف کرنا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی، انہوں  نے وہ کام کرنے چھوڑ دئیے جن کے کرنے کا انہیں  حکم دیاگیاتھا اور ان کاموں  کو کرنے لگ گئے جنہیں  کرنے سے انہیں  منع کیاگیاتھا ،ا سی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُمورِ اصلیہ اور فرعیہ (یعنی عقائد و اَحکام) میں  سے کسی ایک چیز میں  بھی ان کی مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔( ابن کثیر، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۳)

            اللہ تعالیٰ کے ا س حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنی صورت اور سیرت یہودیوں  اور عیسائیوں  جیسی بناتے اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں  اور ان لوگوں  کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود مسلمانوں  کو یہودی اور عیسائی نظریات اوران کے طور طریقے اپنانے کی کسی بھی انداز میں  ترغیب دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔